سوال میرے بیٹے کی عمر 15 سال ہے ، اس کی پیدائش اور پرورش امریکہ میں ہوئی ہے، میرے بیٹے کی سہیلیاں بھی ہیں، اور مجھے ابھی پتہ چلا ہے کہ وہ ان میں سے ایک کے ساتھ جسمانی تعلقات بھی قائم کرتا ہے، اس کی اس حرکت پر مجھے گناہ کا احساس ہوتا ہے، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ میں کیا کروں؟ کیا بیٹے کے گناہوں پر اللہ تعالی مجھے سزا دے گا؟

جواب الحمد للہ. دینی نقصان در حقیقت حقیقی نقصان ہے، اللہ تعالی ہم سب کو دینی نقصان سے محفوظ رکھے، انسان کو اپنے بعد سب سے زیادہ اپنی اولاد عزیز ہوتی ہے، اولاد کے ذریعے ہی انسان خوش ہوتا ہے اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاماً ترجمہ: اور [رحمن کے بندے] کہتے ہیں : ہمارے پروردگار! ہماری بیویوں اور اولادوں سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈ عطا فرما، اور ہمیں متقین کا پیشوا بنا۔ [الفرقان:74]

نیک اولاد کی تربیت: والدین کی ذمہ داری

لیکن دلی خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک صرف اس اولاد سے ملتی ہے جو اللہ تعالی کی اطاعت کرے اور نیک ہو، حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: (آنکھوں کی ٹھنڈک یہ ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندے کو اس کی بیوی، بھائی، اور رشتہ دار سے نیکی دکھلائے۔ اللہ کی قسم! انسان کو اس کا بیٹا، یا والد، یا رشتہ دار یا بھائی اللہ کا اطاعت گزار نظر آئے اس سے بڑی کوئی بات نہیں ہے۔) ختم شد
تحفۃ الموولود، از ابن قیم : (424)

بلا شبہ والدین سے جو سب سے اہم باز پرس ہو گی وہ بچوں کی حفاظت ، دیکھ بھال، اطاعتِ الہی پر تربیت ، اور اللہ کی نافرمانی سے نفرت کے بارے میں ہو گی، فرمانِ باری تعالی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَاراً اے ایمان والو! تم اپنی جانوں اور اہل خانہ کو آگ سے بچاؤ۔ترجمہ: [التحریم: 6] امام مجاہدؒ اور دیگر سلف صالحین اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ: اپنے اہل خانہ کو تقوی الہی کی تاکیدی نصیحت کرو اور انہیں با ادب بناؤ۔ اسی طرح قتادہ ؒکہتے ہیں: انہیں اطاعت الہی کا حکم دو اور اللہ تعالی کی نافرمانی سے روکو۔

صحیح بخاری و مسلم میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم میں سے ہر آدمی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ حکمران ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ مرد اپنے گھر کے معاملات کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا محافظ ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔ توجہ کرو! تم میں سے ہر ایک شخص ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے ہی اس کی ذمہ داری کے بارے میں پوچھا جائے گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (2554) اور مسلم : (1829) نے روایت کیا ہے۔

تو اس حدیث میں ہر مکلف شخص کے مواخذے کی دلیل ہے کہ اگر اس نے اپنے ماتحت افراد کے متعلق کوتاہی کی تو اس سے باز پرس ہو گی۔

پھر اس حدیث میں صراحت کے ساتھ والدین کو بھی اس بنیادی اصول میں شامل کیا گیا ہے کہ: (مرد اپنے گھر کے معاملات کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہو گا۔)

تو بچوں کی ذمہ داری والدین پر ہے؛ کیونکہ دونوں کو ہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو جہنم سے بچائیں، اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کروائیں، اور نواہی سے دور کریں۔ چنانچہ اگر والدین اولاد کی صحیح تربیت کی ذمہ داری اچھے انداز سے ادا کریں، اس میں کوتاہی نہ کریں تو پھر اگر اولاد منحرف ہو جائے تو والدین پر کوئی گناہ نہیں ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى ترجمہ: کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ [الانعام: 164]

جب ہر ایک کو شریعت کی رو سے اور بدیہی طور بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوتاہی کی تو بچوں کے منحرف ہونے کے بارے میں ان سے باز پرس ہو گی، تو جو خاندان مغربی ممالک میں رہتے ہیں ان کی اپنے بچوں کے متعلق ذمہ داری کسی اور نوعیت کی ہو گی، ایسے شخص کی ذمہ داری سب سے الگ تھلگ اور سب سے بڑی ہو گی کہ جس نے اپنے جگر گوشے کو ہاتھ باندھ کر مغربی تہذیب کے دریا میں بہا دیا !!

جو حالت اس وقت آپ کے بیٹے کی ہے، اور ایسے بہت سے واقعات ہیں، ان سب میں معاملات حد سے بڑھنے سے پہلے اقدامات ضروری ہوتے ہیں، چنانچہ اسلام میں اجنبی لڑکے اور لڑکی میں کوئی دوستی نہیں ہوتی، بالخصوص آپ کے بیٹے کی عمر میں۔

لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ اب کیا اور کیسے کیا جائے؟

آپ دونوں یعنی بچے کے ماں باپ ہر ایسا حیلہ اور وسیلہ اپنائیں جن سے آپ اپنے بچے کو اس گناہگار دوستی سے فوری طور پر دور کر دیں، اپنے بیٹے کو اجنبی لڑکیوں سے دوستی نہ کرنے دیں، چاہے ابھی تک یہ دوستی زنا کا سبب نہ بھی بنی ہو؛ کیونکہ ہم نے پہلے بھی بتلا دیا ہے کہ شریعت میں ایسے تعلقات منع ہیں۔

ان حرام دوستیوں سے دور کرنے کا فوری اور ممکنہ ذریعہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی فوری شادی کر دی جائے، اس لیے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کے اخراجات کی استطاعت رکھتا ہو تو وہ شادی کر لے، اور جس میں استطاعت نہ ہو تو وہ روزے رکھے، یقیناً روزے اس کے لیے شہوت توڑنے کا باعث ہوں گے۔) متفق علیہ

شہوت توڑنے کا مطلب یہ ہے کہ: گناہ میں ملوث ہونے سے بچائیں گے۔

لیکن آپ دونوں اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ نوجوانوں کو ایسے تعلقات سے دور کرنا کوئی آسان نہیں ہے، بلکہ جس علاقے میں آپ رہتے ہیں وہاں یہ کام ناممکن بھی ہو سکتا ہے؛ کیونکہ جس مغربی ماحول میں نوجوان نسل کی پرورش ہو رہی ہے یہ ماحول ہر قسم کے شبہات اور شہوات سے رنگین ہے، ان فتنوں نے وہاں پر پیدا ہونے والی مسلمانوں کی دوسری اور تیسری نسل کو ایسی قوم بنا دیا ہے کہ وہ دن بہ دن اسلامی شعائر اور شریعت سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں، اسلامی اقدار کی جگہ پر مغربی اثرات کو دلوں میں جگہ دے چکی ہے، اور معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ یہ نسل صرف اس حد تک مسلمان ہے کہ یہ مسلم گھرانے میں پیدا ہوئی ہے!!

تو اس صورت حال میں ایک بار پھر آپ سے سوال ہے کہ: کیا آپ حکمِ الہی کی تعمیل کی استطاعت رکھتے ہیں؟ کیا آپ کو اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کا احساس ہے؟ پھر کیا آپ اپنی اولاد کے ضائع ہونے سے ڈر بھی رہے ہیں؟ اور کیا آپ ماضی میں جو کچھ ہوا اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں؟ ان سب چیزوں کی وجہ سے کیا آپ دنیاوی چکا چوند کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کہ آپ مغربی ممالک سے واپس اپنے ملک میں آ جائیں، یا کسی ایسے علاقے میں آ جائیں جہاں آپ اپنے دین کو تحفظ دے سکیں؟ یہ اقدام فوری کرنے والے ہیں، کوئی پتہ نہیں کب موت آئے اور سب راستے بند ہو جائیں، اور پھر کہنے والا کہتا ہی رہ جائے کہ: رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ترجمہ: میرے رب! مجھے واپس بھیج دیں۔ شاید کہ میں سابقہ زندگی میں چھوڑے ہوئے اعمال کر سکوں! ہرگز ایسا نہیں ہو گا، یہ تو اس کی کہی ہوئی ایک بات ہو گی ، اور وہ تو قیامت کے دن تک عالم برزخ میں ہیں۔ [المؤمنون: 99 – 100]

یہ اقدام اپنے اعمال کے نتائج اور انجام سامنے آنے سے پہلے کرنے والے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا تَأْوِيلَهُ يَوْمَ يَأْتِي تَأْوِيلُهُ يَقُولُ الَّذِينَ نَسُوهُ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ فَهَلْ لَنَا مِنْ ‌شُفَعَاءَ فَيَشْفَعُوا لَنَا أَوْ نُرَدُّ فَنَعْمَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنَّا نَعْمَلُ قَدْ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

ترجمہ: وہ اس کے انجام کے سوا کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں ؟ جس دن اس کا انجام آ پہنچے گا تو وہ لوگ جنہوں نے اس سے پہلے اسے بھلا دیا تھا کہیں گے یقیناً ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے تھے کیا ہمارے لیے کوئی سفارش کرنے والے ہیں کہ جو ہماری سفارش کریں یا ہمیں واپس بھیجا جائے تو ہم اس کے برخلاف عمل کریں جو ہم کیا کرتے تھے۔ بلاشبہ انہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا اور ان سے گم ہو گیا جو وہ جھوٹ بنایا کرتے تھے۔ [الاعراف: 99]

یا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے کندھوں پر آنے والی ذمہ داری ان قربانیوں کی مستحق نہیں ہے!؟

ممکن ہے کہ آپ کہیں: آج کل تو مسلمانوں کے ممالک بھی فتنوں اور گناہوں سے بھرے پڑے ہیں، لہذا ہمیں کہیں بھی ایسا صاف ستھرا ماحول نہیں ملے گا جو اولاد کی عین شریعت کے مطابق تربیت کے لیے موزوں ہو، تو پھر مغربی ممالک سے وہاں جانے کی کیا ضرورت ؟!

تو کہا جائے گا: جی ہاں! آپ کسی حد تک ٹھیک کہہ رہے ہیں، لیکن اگر ہم 100 فیصد خیر حاصل نہ کر سکیں تو ممکنہ حد تک خیر حاصل کرنا ہم پر لازم ہے، اسی طرح اگر ہم برائی سے 100 فیصد بچ نہ سکیں تو جس قدر ممکن ہو اتنا تو ہمیں برائی سے بچنا چاہیے، پھر ہر جگہ کی خرابیاں بھی یکساں نہیں ہوتیں!!

تو یہاں پر صرف اپنے آپ کے ساتھ سچا برتاؤ اور رویہ رکھنے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی نے بھی سچ فرمایا: بَلْ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ . وَلَوْ أَلْقَى مَعَاذِيرَهُ ترجمہ: بلکہ انسان اپنے بارے میں خوب جانتا ہے، چاہے کتنے ہی بہانے پیش کرے۔[القیامہ: 14 – 15]

اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنے محبوب اور رضا کے موجب عمل کرنے کی توفیق دے۔

Please follow and like us:
Pin Share

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *