آپ نے ایک فارسی کا مشہور محاورہ کبھی سنا ہوگا کہ ’’عذرگناہ بدتر از گناہ ‘‘ یعنی کہ ایک تو گناہ کرنا اور پھر مزیدیہ کہ اس گناہ پر کوئی بہانہ ڈھونڈنا یا پھر اس گناہ کے جواز میں کوئی عذر پیش کرنا یاپھر اپنے گناہ پر وکیل بن جانایہ گناہ سے بھی بدتر ہےاورآج کل سماج ومعاشرے میں زیادہ تر یہی ہورہاہے کہ ایک تو لوگ گناہ پر گناہ کرتے جارہے ہیں اورطرفہ تماشا تودیکھئے کہ لوگ اس کے جوازپر اپنی طرف سے کوئی حیلہ وبہانہ بھی پیش کردیتے ہیں،ایک دورایسا تھا کہ لوگ معمولی معمولی اورچھوٹے چھوٹے گناہوں کو بہت بڑا تصورکرتے تھے اورایک آج کل کا دور ہے کہ لوگ بڑے بڑے گناہوں کو معمولی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں،میرے دوستو! گناہوں کو معمولی سمجھنے سے بچواورطرح طرح کے حیلوں اوربہانوں سے گناہوں کا ارتکاب نہ کرو ورنہ تمہاری آخرت تباہ وبرباد ہوجائے گی جیساکہ حبیب کائناتﷺ نے فرمایا کہ اے لوگو!’’ إِيَّاكُمْ وَمُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبَ ‘‘تم ان گناہوں سے بچو جن کو لوگ معمولی سمجھتے ہیں کیونکہ معمولی سمجھے گئے گناہوں کی مثال ایسے لوگوں کی مانند ہے جو دوران سفر کسی وادی کے درمیان میں اترے،پھر جب انہیں کھاناپکانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو ان میں سے کوئی ایک شخص ایک لکڑی لایا تو کوئی اورایک لکڑی لایا یہاں تک کہ انہوں نے اپنی روٹی پکالی ،یعنی ایک لکڑی کے ٹکڑے سے کچھ نہیں ہوسکتاہے اورنہ ہی کھاناوغیرہ اس سے پکایاجاسکتاہے مگر جب یہی ایک ایک کرکے جمع ہوجائیں تو اس سے کھاناوغیرہ پکایاجاسکتاہے ،اسی طرح سے گناہ بھی جب ایک ایک کرکے جمع ہوجائیں تو انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے ہلاک وبرباد ہوسکتاہے،یہی وجہ ہے کہ آخرمیں حبیب کائناتﷺ نے یہ فرمایا کہ ’’ وَإِنَّ مُحَقَّرَاتِ الذُّنُوبِ مَتَى يُؤْخَذْ بِهَا صَاحِبُهَا تُهْلِكْهُ ‘‘بےشک گناہوں کو معمولی سمجھنے والا جب پکڑاجاتاہے تو وہ اس کو ہلاک کردیتی ہے۔(الصحیحۃ:3102،مسنداحمد:22808)

اس لئے میرے دوستو!گناہ گناہ ہے !اسے معمولی نہ سمجھو اور اس سے غافل نہ رہو کیونکہ ہماری ایک ایک حرکت نوٹ کی جارہی

ہے اورہمارےایک ایک گناہ کو لکھاجارہاہےجو ہمارے نامۂ اعمال میں جمع ہورہے ہیں اوران سب کے بارے میں ایک نہ ایک دن ہم سے پوچھ تاچھ کی جائے گی اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے سیدالاولین والآخرین حبیب کائنات ﷺ نے اپنی چہیتی بیوی سیدہ عائشہؓ سے کیا کہ اے عائشہ ’’ إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الْأَعْمَالِ فَإِنَّ لَهَا مِنَ اللَّهِ طَالِبًا ‘‘معمولی سمجھےجانے والے گناہوں سے بچنا کیونکہ اللہ کے یہاں ان کا بھی مؤاخذہ ہوگا۔(الصحیحۃ :513،ابن ماجہ:4243)آج ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ ہم گناہ پر گناہ کئے جارہے ہیں مگر ہمیں ذرہ برابر بھی اللہ کا ڈر وخوف نہیں اور نہ ہی ہمیں اس بات کا پاس ولحاظ اور خیال ہے کہ اللہ رب العزت ہم سے اس بارے میں سوال کرے گا،ہم گناہوں کے اتنے عادی اوررسیاہوچکے ہیں کہ ہم اپنے گناہوں پر وکیل بن چکے ہیں اوراپنے ہرگناہ کو جائز ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتےہیں اور ہم ہرروزطرح طرح کے حیلے وبہانے کو اپناتے ہوئے گناہ پر گناہ انجام دئے جارہے ہیں اورهماري حالت ٹھیک اس انسان کی طرح ہوگئی ہے جس کا تذکرہ کرتے ہوئے سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ نے کہاتھا کہ ’’ إِنَّ المُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ ‘‘ مومن اپنے گناہوں کو ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتاہے کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گرجائے اور اسی کے برعکس ’’ وَإِنَّ الفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ فَقَالَ بِهِ هَكَذَا ‘‘ ایک بدکار اور فاسق انسان اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح ہلکا سمجھتاہے کہ وہ اس کے ناک کے پاس سے گذری اور اس نے اپنے ہاتھ سے یوں اس کی طرف اشارہ کیا اورمکھی بھاگ گئی۔(بخاری:6308)یقینا ہماری حالت اسی انسان کی طرح ہوگئی ہے کہ ہم گناہ پر گناہ کئے جارہے ہیں اور ہمارے دلوں میں ذرہ بھر بھی اللہ کا ڈر وخوف نہیں ہے بلکہ آج کل کے اکثرمسلمانوں نے اپنے گناہوں کو جائز ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے وبہانےکو اختیار کرلیاہے بلکہ کچھ ایسے بدنصیب بھی ہیں جو اپنے گناہوں کو جائز وحلال ثابت کرنے کے لئے دلیلیں بھی دیتے ہیں اللہ کی پناہ!

میرے دوستو!ایک دورایسا تھا کہ لوگ معمولی معمولی اورچھوٹے چھوٹے گناہوں کو بہت بڑا تصورکرتے تھے اورایک آج کل کا دور ہے کہ لوگ بڑے بڑے گناہوں کو معمولی سمجھ کر انجام دے رہے ہیں اور پھرمزید اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اس پر دلیلیں بھی دے رہے ہیں،غالبالوگوں کی انہیں باتوں اور حالتوں کو دیکھ کر اپنے زمانے میں سیدناانسؓ نے کہاتھا کہ اے لوگو! ’’ إِنَّكُمْ لَتَعْمَلُونَ أَعْمَالًا هِيَ أَدَقُّ فِي أَعْيُنِكُمْ مِنَ الشَّعَرِ ‘‘تم لوگ ایسے ایسے اعمال کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں یعنی تم لوگ اس گناہ کو حقیر سمجھتے ہو اوربڑاگناہ نہیں سمجھتے ہو اور ’’ إِنْ كُنَّا لَنَعُدُّهَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ المُوبِقَاتِ ‘‘ایک ہم لوگ ہیں کہ آپﷺ کے زمانہ میں انہیں کاموں کو ہلاک کردینے والاسمجھتے تھے۔(بخاری:6492،الصحیحۃ:3023) اس لئے میرے دوستو! گناہ سے بچو!اور گناہوں کو معمولی نہ سمجھو اور نہ ہی اپنے گناہوں پر طرح طرح کے حیلے وبہانے پیش کیا کرو کیونکہ ایسا کرنا تو ابلیسی اور شیطانی صفت ہے کہ انسان گناہ بھی کرے اور اس پرکہ دلیلیں بھی دے ،کیا آپ نے قرآن کا یہ قصہ نہیں سنا کہ ابلیس نے ایک تو اللہ کی نافرمانی کی اور باباآدم کا سجدہ کرنے سے انکار کردیا مگر اس کی ہٹ دھرمی وبے شرمی تو دیکھئے کہ اس پر دلیلیں بھی دینے لگا اور کہنے لگا کہ ’’ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ ‘‘ میں آدم سے بہترہوں کیونکہ تونے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کوخاک سے پیداکیا ہے۔(الاعراف:12)دیکھا اور سنا آپ نے کہ ایک تو ابلیس ملعون نے اللہ کی نافرمانی کی مگر اس کی ذراہٹ دھرمی تو دیکھئے کہ اپنے اس خبیث عمل کو جائز ثابت کرنے کے لئے دلیل بھی دے رہاتھاایسے ہی حرکت وعمل کے بارے میں یہ محاورہ کہا گیا کہ ’’ عذر گناہ بدتر از گناہ ‘‘ اور اس کی اسی ہٹ دھرمی اور ڈھیٹائی نے اسے ملعون ومردود بنوایا،لہذا اے میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو! اپنے گناہوں پر کبھی بھی اوٹ پٹانگ کی دلیلیں نہ دیا کرو بلکہ فورا ًاللہ کے حضور توبہ واستغفار کرلیا کرو!اب آئیے میں آپ لوگوں کو لوگوں کے وہ حیلے وبہانے اورشیطانی حربوں کوسنا دو جن کو اکثر وبیشتر آج کل کے لوگ اپنے اپنے گناہوں کو جائز ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے رہتے ہیں :۔

گناہ پرگناہ کرنا اور یہ کہنا کہ اللہ غفور ورحیم ہے

میرے دوستو! آج کل اکثر لوگ گناہ پر گناہ کرتے رہتے ہیں اور یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا ہوا ،گناہ ہی تو ہے اللہ معاف کرنے والا ہے،بہت سارے لوگ تو ہرگناہ کو یہ سوچ کرانجام دیتے ہیں کہ ہم شرک نہیں کرتے ہیں اسی لئے اللہ ہم کو معاف فرما دے گا،بہت سارے لوگ اپنے گناہ پر یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ اللہ 70 ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والاہے!الغرض لوگ اللہ کی مغفرت ورحمت کا حوالہ دے کر گناہ پر گناہ کئے جارہے ہیں اور یقینا یہ شیطان کا وہ کامیاب حربہ ہے جس میں بہت سارے لوگ پھنس چکے ہیں اورشیطان بھی اس بات پرخوش وخرم ہوگا کہ چلو ہم نے بہت سارے لوگوں کو اپنے دام فریب میں پھنسا لیا ہے،میرے دوستو! اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اللہ غفور ورحیم ہےمگر اللہ کی صرف یہی ایک صفت نہیں ہے بلکہ اللہ کی اور دوسری صفت بھی ہے کہ اللہ قہار وجبار بھی ہے،اللہ جہاں معاف کرنے اور بخشنےاور رحم کرنے والاہے وہیں پر دوسری طرف اللہ سخت سزائیں اور سخت عذاب بھی دینے والاہےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے کہ’’ نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ، وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ ‘‘ میرے بندوں کو خبردے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑاہی مہربان ہوں اور ساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔(الحجر:49-50)دیکھا اور سنا آپ نے کہ رب العزت نے ایک ساتھ دونوں باتوں کو بیان کیاہےکہ جہاں اللہ بڑا مہربان اور غفورورحیم ہے وہیں پر رب العزت کی پکڑاور اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے،اورانہیں دونوں باتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی زندگی گذارنی ہےاوریہی ایک مومن کی پہچان بھی ہے کہ وہ اپنے رب سے امید وخوف کے درمیان میں زندگی گذارے،اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے رب العزت نے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا کہ ’’ أُولَئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًا ‘‘جنهیں یہ لوگ پکارتے ہیں خود وہ اپنے رب کے تقرب کی جستجو میں رہتے ہیں کہ ان میں سے کون زیادہ نزدیک ہوجائے وہ خود اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے خوفزدہ رہتے ہیں،(بات بھی یہی ہے ) کہ تیرے رب کا عذاب ڈرنے کی چیز ہی ہے۔(الاسراء:57)میرے دوستو!ذراغورکیجئے کہ نیک لوگوں اور ایمان والوں کی پہچان کیاہوتی ہے کہ وہ رب کی رحمت ومغفرت کے امیدوار بھی ہوتے ہیں اور ساتھ میں عذاب خدا سے لرزتے اور کانپتے بھی رہتے ہیں،مگر افسوس کہ آج کل کے لوگوں نے صرف ایک پہلو کو یادرکھااور دوسرے پہلو کو بھلادیاجس کی وجہ سے وہ گناہ پر گناہ کئے جاتے ہیں اور ذرہ بھر بھی دل میں خوف خدا پیدانہیں ہوتاہے،جب کہ رب العزت نے ببانگ دہل یہ اعلان کردیاہے کہ جہاں میری مغفرت ورحمت وسیع ہے وہیں پر میری پکڑ بھی سخت ہے اور میراعذاب بھی سخت ہے فرمایا ’’ إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ ‘‘یقینا تیرےرب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔(البروج:12

) اوركهيں فرمایا کہ میں سخت انتقام بھی لینے والابھی ہوں ’’ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ ‘‘اورالله تعالي غالب ہے ،بدلہ لینے والاہے۔(آل عمران:4)اسی لئے میرے دوستو!صرف اللہ کی مغفرت ورحمت کے سہارے گناہ پر گناہ نہ کیا کرو بلکہ اپنے دل میں امید وخوف رکھاکرو اللہ تمہیں بچالے گا اوراگرایسا نہیں کروگے تو رب العزت تمہارے ساتھ کیاکرے گا وہ بھی سن لو حدیث قدسی ہے،رب العزت کا یہ وعدہ اور اعلان ہے کہ ’’ وَعِزَّتِي لَا أَجْمَعُ عَلَى عَبْدِي خَوْفَيْنِ وَأَمْنَيْنِ ‘‘ مجھے میری عزت کی قسم ہے!اپنے کسی بندے پر دوخوف اوردوامن اکٹھے نہیں کروں گا ’’ إِذَا خَافَنِي فِي الدُّنْيَا أَمَّنْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَإِذَا أَمِنَنِي فِي الدُّنْيَا أَخَفْتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ‘‘ (وہ اس طرح سے کہ )اگراس نے دنیا میں مجھ سے خوف رکھا تو میں اسے قیامت کے دن امن دوں گا اور اگر دنیا میں وہ مجھ سے بے خوف رہاتو میں اسے قیامت کے دن خوف سے دوچار کردوں گا۔(صحیح ابن حبان :639،الصحیحۃ:742،2666)

جھوٹ بولنا اور یہ کہنا کہ ہنسی مذاق میں چلتاہے

میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیواوربہنو!قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جھوٹ عام ہوجائےگا اور جھوٹ پھیل جائے گایعنی کہ لوگ جھوٹ بہت کثرت سے بولیں گےاورآج یہی وہ دور ہے جس میں لوگ کثرت سے جھوٹ بولتے ہیں،ہم نے تو دیندارکہلائے جانے والے اورنمازی حضرات کو بھی جھوٹ کے پل باندھتے ہوئے دیکھے ہیں ،اللہ کی پناہ! اور تواور ہے یہ کمبخت موبائل شریف جب سے آیاہے تب سے تو جھوٹ کچھ زیادہ ہی عام ہوگیاہے،ہرکوئی اس کے ذریعے بلاسوچے سمجھے جھوٹ بول دیتاہے،اگرکوئی کال کرے تو بولتاہے میں باہر ہوں جب کہ وہ گھرمیں موجود ہوتاہے،اگرکوئی کال کرکے بلائے تو بولتاہے کہ بس دومنٹ میں آیا مگر وہ دس منٹ میں آتاہے،میرے دوستو!یہ سب جھوٹ میں شامل ہےمگرہرکوئی بڑے ذوق وشوق سے جھوٹ بولتانظرآتاہے جب کہ جھوٹ بولناکتنابڑاگناہ ہے یہ ہرکوئی جانتاہے کہ جھوٹ بولنے والوں سے اللہ نفرت کرتاہےاور جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنتیں برستی ہیں مزید یہ کہ جھوٹ بولنا ہمیشہ سےمنافقوں کاشیوہ اور وطیرہ رہاہے مگر دیکھا یہ جاتاہے کہ لوگ بڑے شوق سے جھوٹ بولتے ہیں اورپھر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہنسی مذاق میں تو سب چلتاہےاور ہنسی مذاق میں توسب جائز ہے،نہیں میرے بھائیواور بہنو!جھوٹ بولنا کسی بھی حال میں جائز نہیں ہےآپ کو یہ سن کربڑی حیرانی ہوگی کہ ائمۂ کرام نے تو یہاں تک یہ بات لکھی ہے کہ جانوروں کے ساتھ بھی جھوٹ بولنا جائز نہیں ہےجیسے کہ کوئی انسان کسی جانورکو ایسی آواز دے یا اسے ایساتأثردے کہ اس کے پاس جھولی میں گھاس پھوس ہے حالانکہ اس میں کچھ بھی نہ ہوتو یہ بھی جھوٹ ہے،

اسی طرح سے یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ مائیں بھی اپنے اپنے بچوں کو یہ کہہ کر دل بہلاتی ہے یا پھر ان کو خوش کرتی ہے کہ اگرتم یہ

کروگے تو میں یہ دلاؤں گی،اگر تم وہ کروگے تو میں تم کو فلاں فلاں چیز دلاؤں گی مگر جب وقت آتاہے تو مائیں اپنے اپنے بچوں کو نہیں دلاتی ہیں تو یہ بھی جھوٹ ہے،کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں نے تو ایک قوالی ہی نکال دی کہ ماں جھوٹ بول بول کر جنت میں جائے گی،ہرگز نہیں!ماں جھوٹ بول بول کر جنت میں نہیں جہنم میں جائے گی اسی لئےمائیں یہ نہ سمجھیں کہ ان سب باتوں پر ان کی پکڑ نہ ہوگی!ضرورہوگی،سنئے ایک پیاری ماں کی انہیں سب حرکتوں پر آپﷺ نے کیاکہاتھا ،واقعہ کچھ یوں ہے کہ عبداللہ بن عامرؓ خودبیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ محترمہ نے آپﷺ کی موجودگی میں ان سے یہ کہاکہ ’’ هَا تَعَالَ أُعْطِيكَ ‘‘اے میرے بیٹے!ادھرآؤتجھے میں کچھ دوں گی توآپﷺ نے ان کی والدہ محترمہ سے پوچھا کہ ’’ وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيهِ ‘‘تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟توانہوں نے کہا کہ ’’ أُعْطِيهِ تَمْرًا ‘‘ میں اسے کھجوردوں گی اسی لئے اسے بلارہی ہو توآپﷺ نے ان سے فرمایا کہ ’’ أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كِذْبَةٌ ‘‘اگرتم اسے کچھ نہ دیتیں تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیاجاتا۔ (ابوداؤد:4991،الصحیحۃ:748) پتہ یہ چلا کہ جھوٹ جھوٹ ہے چاہے وہ جان بوجھ کربولی جائے یا پھر ہنسی مذاق میں بولی جائے یہی وجہ ہے کہ حبیب کائنات اور محبوب خداﷺ نے ایسے لوگوں کو وعید سنائی ہے جو لوگوں کو ہنسانے کےلئے جھوٹ بولتے ہیں فرمایا کہ ’’ وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ بِالحَدِيثِ لِيُضْحِكَ بِهِ القَوْمَ فَيَكْذِبُ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ ‘‘ اس انسان کے لئے تباہی ہے جولوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتاہے،اس کے لئے تباہی ہے،اس کے لئے تباہی ہے۔(ترمذی:2315،صحیح الجامع للألبانی:7136،المشکاۃ للألبانیؒ:4838)اس لئے میرے بھائیواوربہنو!جھوٹ بول بول کرلوگوں کو ہنسا کراپنی آخرت بربادنہ کیاکرو،جھوٹ موٹ میں بھی اپنے زبان پر لگام لگاکررکھاکرو کیونکہ ہمارے اورآپ کے نبیﷺ کا یہ ارشادہے کہ ’’ إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا يَهْوِي بِهَا سَبْعِينَ خَرِيفًا فِي النَّارِ ‘‘ آدمی کوئی جملہ بولتاہے جس میں وہ کوئی حرج نہیں دیکھتااورسمجھتاہے لیکن اس کی وجہ سے سترسال کی مسافت تک جہنم میں گر جاتاہے ۔(ترمذی:2314،الصحیحۃ:540)بلکہ بعض روایتوں کے اندر تو آپ ﷺکایہ فرمان بھی مذکور ہے کہ ’’ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ مَا كَانَ يَظُنُّ أَنْ تَبْلُغَ مَا بَلَغَتْ يَكْتُبُ اللَّهُ لَهُ بِهَا سَخَطَهُ إِلَى يَوْمِ يَلْقَاهُ ‘‘ ایک انسان بلاسوچے سمجھے اوربغیرغوروفکرکے اللہ کی ناراضگی کا کوئی ایساجملہ اپنی زبان سے نکال دیتاہے کہ اللہ اس کے لئے قیامت تک کے لئےاپنی ناراضگی کو لکھ دیتاہے۔اللہ کی پناہ!(الصحیحۃ:888)اس لئے میرے دوستو!جھوٹ موٹ وہنسی مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولاکرو ورنہ تمہاری دنیاوآخرت تباہ وبربادہوجائے گی۔

غیبت کرنااورپھر یہ کہنا کہ میں تواس کے منہ پربھی یہ بات کہہ سکتاہوں

میرے دوستو!کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ غیبت کرنابھی ہے،دیکھایہ جاتاہے کہ لوگ جب بھی ملتے ہیں تو کسی نہ کسی کی غیبت شروع کردیتے ہیں بلکہ کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن کا محبوب مشغلہ ہی ہوتاہے غیبت کرنا،جب تک وہ غیبت نہ کرلیں تب تک ان کا پیٹ نہ بھرے،ہم نے کتنے ایسے نمازی صاحب دیکھے ہیں جو نماز پڑھتے ہی مسجد میں بیٹھ کر غیبت شروع کردیتے ہیں، کیا علماءکیاجہلاء ،کیامرد کیاعورت،کیابچے کیاجوان سب کے سب اس بیماری میں مبتلا ہیں کہ وہ ہرآن وہرلمحہ کسی نہ کسی کی غیبت کرتے رہتے ہیں اور اگران کو اس حرکت سے روکاجائے توبڑے ہی ڈھیٹائی وبے شرمی سےفوراً یہ کہہ دیتے ہیں کہ میں تو یہ بات اس کے منہ پر بھی کہہ سکتاہوں ،میں اس سے تھوڑی ڈرتاہوں جب کہ غیبت کامطلب ہی ہوتاہے کہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائیوں اورعیبوں کا تذکرہ کرناجیساکہ محبوب خداﷺ نے ایک باراپنے پیارے اصحاب سے پوچھا کہ ’’ أَتَدْرُونَ مَا الْغِيبَةُ ‘‘ كياتم سب جانتے ہوکہ غیبت کیاہے؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہترجانتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ غیبت تو یہ ہے کہ ’’ ذِكْرُكَ أَخَاكَ بِمَا يَكْرَهُ ‘‘تم اپنے بھائی کی کسی ایسی بات کا تذکرہ کرو کہ اور گروہ سن لے تو اس کوبرالگے،صحابہ نے کہا کہ اے میرے آقاﷺ اچھایہ بتائیں کہ ’’ أَفَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ فِي أَخِي مَا أَقُولُ ‘‘جومیں کہہ رہاہوں اگروہ میرے بھائی میں موجود ہوں تو کیا یہ بھی غیبت ہے؟توآپﷺ نے فرمایا کہ ’’ إِنْ كَانَ فِيهِ مَا تَقُولُ فَقَدِ اغْتَبْتَهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهِ فَقَدْ بَهَتَّهُ ‘‘جوکچھ تم اپنے بھائی کے بارے میں بیان کررہے ہو اورکہہ رہے ہو اگر وہ چیز اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اوراگر اس میں وہ عیب وخرابی موجود نہیں ہے جوتم بیان کررہے ہو تو تم نے اس پر بہتان لگایا۔(مسلم:2589)دیکھا اورسنا آپ نے کہ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی بیان کرنا یا پھر کسی کی عیب کا تذکرہ کرنا کتنا خطرناک ہےکہ اگراس میں وہ چیز ہے تو تو غیبت ہے اوراگرنہیں ہے تو وہ وہ بہتان ہےاور یہ دونوں بھی کبیرہ گناہ ہیں ،لوگ اس گناہ کو بڑے ہی شوق سے انجام دیتے ہیں جب کہ قرآن کا یہ کہنا ہے کہ کسی کی غیبت کرنا آدم خور بنناہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ‘‘ اورنہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے،کیاتم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتاہے؟تم کو اس سے گھن آئے گی۔(الحجرات:12)دیکھااورسنا آپ نے کہ کسی کی غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاناہے مگرلوگ بڑے شوق سے یہ کام کرتے ہیں،میرے بھائیو! اپنے آپ کواس بری بلاسے بچایاکرو کیونکہ جو انسان غیبت کرتارہتاہے وہ ایک ایسابدنصیب انسان ہے جو اپنی نیکیاں کل قیامت کےدن غیبت کرنے والے کو دینے والاہے۔اللہ کی پناہ! کہاجاتا ہےکہ کسی نے حسن بصریؒ سے آکر کہا کہ فلاں نے آپ کی غیبت کی ہے!تو یہ سن کر حسن بصریؒ نے غیبت کرنے والے کو کھجورسے بھرا ایک ٹوکری تحفہ میں دے کربھیجا اور قاصد کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ جاؤ یہ تحفہ فلاں صاحب کو دے دینا اور یہ کہہ دینا کہ یہ تحفہ حسن بصری نے آپ کو دیا ہے کیونکہ آپ نے ان کی غیبت کرکے اپنی نیکیاں ان کو دے دی ہے۔سوچو!میرے بھائیو یہ نیکیاں کہیں آپ دوسروں کو دینے کے لئے تو انجام نہیں دے رہے ہیں!

تہمت لگانا اورپھر یہ کہنا کہ یہ تو ساری دنیا کہہ رہی ہے

میرے دوستو!تہمت لگانا بھی بہت بڑاگناہ ہے اورتہمت لگانے والوں کے اوپر تو اسلام میں کوڑے مارنے کی سزا رکھی گئی ہےمگردیکھا یہ جاتاہے لوگ اس گناہ کا بھی ارتکاب بڑے شوق سے کرتے ہیں بلکہ خواتین تو اس گناہ میں کچھ زیادہ ہی آگے آگے رہتی ہے اور یہی کہتی ہے کہ یہ تو سارا محلہ کہہ رہاہے،لوگ بلاوجہ میں کسی کی بیٹی کے بارے میں کوئی تہمت لگا کر افواہ پھیلادیتے ہیں اورپھر یہی کہتے ہیں کہ یہ بات تو سارا زمانہ جانتاہے جب کہ ہرسنی سنائی ہوئی باتوں کو پھیلانے والا شریعت کی نگاہ میں گناہگاربھی ہے اور جھوٹا بھی ہےجیسا کہ فرمان مصطفی ﷺ ہے ’’ كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‘‘ کسی انسان کے گناہگارہونے کے لئے یہی بات کافی ہےکہ وہ ہرسنی سنائی ہوئی باتوں کوبیان کرتاپھرے۔ (ابوداؤد:4992،الصحیحۃ:2025) اور مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ ایسا انسان جھوٹابھی ہے جیسا کہ فرمان رسول عربیﷺ ہے ’’ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ‘‘کسی انسان کے جھوٹاہونے کے لئے بس اتنی سی بات کافی ہے کہ وہ ہرسنی سنائی ہوئی باتوں کو بیان کرتاپھرے۔(مقدمہ صحیح مسلم،الصحیحۃ:2025)جولوگ بھی اس طرح کی بری حرکت کرتے رہتے ہیں اورہرایک کے اوپر تہمت لگاتے پھرتے رہتے ہیں ایسے لوگ کان کھول کرسن لیں !سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ’’ لَمَّا عَرَجَ بِي رَبِّي مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ يَخْمُشُونَ وُجُوهَهُمْ وَصُدُورَهُمْ ‘‘ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میراگذرایک ایسی قوم پر سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ لوگ اس سے اپنے چہروں اورسینوں کو نوچ رہے تھےاورزخمی کررہے تھے،میں نے یہ خطرناک منظر دیکھ کر جبرئیل امین سے پوچھا کہ یہ کون بدنصیب لوگ ہیں اے جبرئیل علیہ السلام تو انہوں نے جواب دیا کہ اے محبوب خداﷺ ’’ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ وَيَقَعُونَ فِي أَعْرَاضِهِمْ ‘‘ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسرے لوگوں کا گوشت کھایاکرتے تھے یعنی لوگوں کی غیبت کیاکرتے تھے اور لوگوں کی عزتوں سے کھیلاکرتے تھےیعنی کہ لوگوں کوبدنام کرتے پھرتے تھے۔(ابوداؤد:4878،الصحیحۃ:533)دیکھا اور سنا آپ نے کہ جولوگوں کی عزتوں کو نیلام کیاکرتے ہیں توایسے لوگوں کا انجام کیاہوگا اس لئے اے میرے پیارے پیارے اسلامی بھائیو اور بہنو !اپنے آپ کو اس بڑے گناہ سے ہمیشہ بچایاکرو اور یہ کبھی نہ کہا کرو کہ یہ بات میں صرف اکیلے نہیں کہہ رہاہوں بلکہ سارا محلہ اور ساراگاؤں جانتاہے۔

گالی دینا اورپھریہ کہنا کہ دوستی یاری میں سب چلتاہے

میرے بھائیو!سماج ومعاشرے میں اکثر دیکھا یہ جاتاہے کہ لوگ اپنے اپنے دوستوں کو گالی دے کر پکارتے ہیں یا پھر بلاتے یا پھر مخاطب کرتے ہیں اور وہ بھی معمولی گالی نہیں بلکہ ماں بہن کی گالی دے کر بلاتے ہیں اور جب انہیں اس بات سے منع کیاجاتاہے تو فوراً یہی جواب دیتے ہیں کہ وہ میرا جگری دوست ہے اور دوستی یاری میں سب چلتاہے بلکہ بعض لوگ تو یہ کہاوت بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ محبت اورجنگ میں سب کچھ جائز ہوتاہے،جب کہ گالی دینا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے،جولوگ بھی اپنے اپنے دوستوں اوریاروں کو ماں بہن کی گالی سے مخاطب کرتے ہیں توایسے لوگ سن لیں کہ وہ اپنے دوست کو نہیں بلکہ وہ خود اپنے اور اپنے ماں باپ کو گالی دے رہے ہوتے ہیں اگرآپ کو میری باتوں پر یقین نہ آرہاہوتو پھر اپنے آقا ومحبوب کائناتﷺ کا یہ فرمان ذرا سن لیں كه’’ مِنَ الْكَبَائِرِ شَتْمُ الرَّجُلِ وَالِدَيْهِ ‘‘ بڑے گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ یہ بھی ہے کہ ایک انسان خودسے اپنے والدین کو گالیاں دے!صحابہ نے بڑے تعجب سے سوال کیا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ’’ وَهَلْ يَشْتِمُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ ‘‘ کیاکوئی انسان اپنے والدین کو گالی دے سکتاہے؟توآپﷺ نے فرمایاکہ’’نَعَمْ يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ وَيَسُبُّ أُمَّهُ فَيَسُبُّ أُمَّهُ ‘‘ ہاں بالکل ایساہوتاہے اور ہوسکتاہے اب دیکھو کوئی انسان کسی کے کے باپ کو گالی دیتاہے تو وہ اس کے باپ کو گالی دیتاہے ،اور اگرکوئی کسی کی ماں کو گالی دیتاہے تو وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے۔(مسلم:90،بخاری:5973)قربان جائیے اپنے نبیﷺ کے اس فرمان پر کہ جیسا آپ نے کہاہے آج سماج ومعاشرے میں ٹھیک بالکل ویساہی ہوتاہے کہ ایک دوست اپنے دوست کو ماں بہن کی گالی دے کرمخاطب کرتاہے اور پھردوسرادوست بھی انہیں الفاظ میں اس کوجواب دیتاہے،افسوس تو اس بات کا ہے میرے دوستو کہ لوگوں کو ذرہ برابربھی شرم وحیانہیں آتی بے تکی گالیاں بکتے ہوئے جب کہ گالی دینا یہ منافقوں کی خصلت وعادت ہے اور گالیاں دینے والوں سے رب العزت بھی نفرت کرتاہےجیساکہ فرمان مصطفیﷺ ہے’’ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيَّ ‘‘اوربےشک اللہ رب العزت فحش بکنے والے اورگالیاں بکنے والوں سے نفرت کرتاہے۔(ترمذی:2002،صحیح الادب المفرد للألبانیؒ:361،الصحیحۃ:1320)

جہیز لینا اور پھریہ کہنا کہ یہ تحفہ وہدیہ ہے

میرے دوستو!سماج ومعاشرے کے اندرجہیز کالینادینا بہت عام بات ہے،آج کل کے دورمیں کوئی بھی شخص بغیرجہیز کےشادی وبیاہ کرنا نہیں چاہ رہاہےجب کہ جہیز لینا یہ بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے وہ اس طرح سے کہ جہیز کا لینا یہ باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھاناہے اورباطل طریقے سے مال کھانے سے رب العزت نے اپنے کلام پاک میں جگہ جگہ پر منع کیاہے،فرمایا’’ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ‘‘اے ایمان والو!اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ۔(النساء:29)اورلڑکی والوں سے جہیز مانگنا یہی تو ہے باطل طریقے سے مال کھانااوریہ جہیز لیناصرف باطل طریقے سے مال کھانا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ظلم بھی ہے کیونکہ اس کے اندر لڑکی والوں پر جبرکیاجاتاہےوہ اس طرح سے کہ جہیز واچھے پکوان اوراچھی مہمان نوازی کے لئے دباؤ بھی ڈالاجاتاہےتوبھلابتلائے کہ یہ ظلم ہے کی نہیں ؟اورجب یہ ظلم ہے تو ظلم حرام ہےجیساکہ حدیث قدسی میں رب العزت کا یہ فرمان ہے کہ’’ يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا ‘‘اے میرے بندو!میں نے ظلم وزیادتی کو اپنے اوپر حرام قراردے لیاہے اورمیں نے اس ظلم کوتمہارے درمیان بھی حرام قراردے دیا ہے لہذا تم ایک دوسرے کو اوپر ظلم نہ کرو۔(مسلم:2577)یہ ظلم حرام بھی ہے اورکبیرہ گناہوں میں سے بھی ہےمگرسماج ومعاشرے میں یہ گناہ بھی بڑے ذوق وشوق سے انجام دئے جاتے ہیں اورطرفہ تماشاتویہ ہےکہ اس ناجائز چیز کو جائز بتانے کے لئے یہ شیطانی حربہ پیش کیاجاتاہے کہ یہ تو ایک ہدیہ ہے!یہ تو تحفہ وہدیہ ہے!یہ تو گفٹ ہے!یہ تو لڑکی والے خوشی سے دے رہے ہیں!یہ تو لڑکی والے اپنی بیٹی کو دے رہے ہیں!ہم نے کوئی ڈیمانڈ نہیں کیا ہے، وہ اپنی مرضی سے دے رہے ہیں وغیرہ وغیرہ،یہی سب وہ شیطانی ہتھکنڈے ہیں جن کو اپنا کر اس ناجائز کام کو جائز سمجھ کرکیا جاتاہےلیکن ہمیں کوئی ذرا یہ تو بتائے کہ یہ جہیزتحفہ وہدیہ کیسے ہے؟کیونکہ:

  • (1)ہدیہ وتحفہ دل کی خوشی سے دی جاتی ہے مگر اس جہیز میں دل کی خوشی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس دل میں یہ ڈر وخوف لگارہتاہے کہ اگرہم نے جہیز نہیں دیا تو میری بیٹی کو سسرال والے ستائیں گے اورطعنے ماریں گے!
  • (2)ہدیہ وتحفہ دینے کے لئے بڑے بڑے قرضے نہیں لئے جاتے ہیں مگر اس جہیز کو اداکرنے کے لئے انسان کو مقروض ہونا پڑتاہے،اپنی جائداد بیچنی پڑتی ہے اوراپناگھروغیرہ بھی گروی رکھنی پڑتی ہے۔
  • (3)ہدیہ وتحفہ دینے میں کسی کا دباؤ نہیں ہوتاہے مگرجہیز میں دولہے میاں کے کنبے وقبیلے اوررشتے داروں کا دباؤ ہوتاہے۔
  • (4)ہدیہ وتحفہ اپنی طاقت کے مطابق دی جاتی ہے مگر اس جہیز میں طاقت سے زیادہ لڑکی والوں پر بوجھ ڈالاجاتاہے۔
  • (5)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے نہ توکوئی کسی سےناراض ہوتاہے اورنہ ہی کوئی کسی کو ستاتااورمارتاوپیٹتاہے مگر یہ جہیز نہ دینے سے دولہے میاں اوردولہے میاں کے ماں باپ ناراض ہوجاتے ہیں،لڑکی کو ستاتے اورمارتے وپیٹتے ہیں بلکہ بسااوقات تو جہیز نہ دینے کی وجہ سے لڑکی کا مرڈر وقتل بھی کردیا جاتاہے۔
  • (6)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے کوئی سوسائڈ وخودکشی نہیں کرتاہے مگر جہیز نہ دینے کی وجہ سے کئی لڑکیاں سوسائڈ وخودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔

(7)ہدیہ وتحفہ نہ دینے سے کوئی کسی سے رشتہ وناطہ ختم نہیں کرتاہے اورنہ ہی اس کو نہ دینے سے زندگی رک جاتی ہے اورنہ ہی اس کے نہ دینے سے کسی کی زندگی تباہ وبرباد ہوتی ہے مگر اس جہیز کے نہ دینے سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لڑکیوں کی زندگی تباہ وبرباد ہورہی ہے،جہیز نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں لڑکیوں کی شادیاں نہیں ہورہی ہیں،اس جہیز کے نہ ہونے سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم لڑکیاں غیروں کے ساتھ راہ فرار اختیارکررہی ہیں اب آپ ہی بتلائیں کہ جب جہیز میں اتنی ساری خرابیاں اورہلاکت وبربادیاں ہیں تو یہ ہدیہ وتحفہ کیسے ہوا اور یہ جائز کیسے ہوا؟اس لئے میرے دوستو!اللہ سے ڈرو اوراس گناہ سے بچاکرو اوربغیرجہیز وڈوری کے ہی اپنی اوراپنی اولاد کی شادی وبیاہ کو انجام دیا کرواوریہ نہ کہاکرو کہ یہ تو تحفہ وہدیہ ہے۔

اسی طرح سے بہت سارے نوجوان جہیز لینے کے لئے یہ بھی ایک حیلہ وبہانہ کرتے ہیں کہ میں مجبورہوں کیوں کہ میری ماں نہیں مان رہی ہے،اسی طرح سے بہت سارے لوگ یہ کہتے بھی نظرآتے ہیں کہ ہماری عورتیں ہماری بات نہیں سنتی ہیں ،ہم اپنی عورتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں کیونکہ وہ بغیر جہیز کے شادی ہی نہیں کرناچاہتی ہے توجولوگ بھی ایسی باتیں بناتے ہیں ایسے لوگ یہ سن لیں کہ ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ حرام وگناہ والے کاموں اوراللہ کی نافرمانی میں کسی مخلوق ماں،بیوی،بہن،بیٹی ،دوست ویاریاپھر پیروفقیرکسی کی بھی بات نہیں ماننی ہے جیسا کہ قرآن میں فرمان باری تعالی ہے ’’ وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ‘‘کہ اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تومیرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا۔(لقمان:15)اورآپﷺ نے بھی یہی حکم دیا کہ ’’ لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ ‘‘ اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔(مسلم:1840،بخاری:7257)

شادیوں میں بے حیائی اوراسراف وفضول خرچی کرنااورپھر یہ کہنا کہ یہ جنازہ تھوڑی ہےاورلوگ کیا کہیں گے؟؟

میرے اسلامی بھائیو اوربہنو!ہماری شریعت نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم اپنے مال ومنال کی حفاظت کریں یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے مال ومتاع کو بربادکرنے والوں کو شیطان کا بھائی قراردیاہے جیساکہ فرمان باری تعالی ہے’’ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا ، إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ ‘‘ اوراسراف اوربيجاخرچ سے بچو،(کیونکہ) بیجاخرچ کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں۔(الاسراء:26-27)ایک جگہ رب العزت نے بیجا خرچ کرنے سےاپنی ناراضگی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ‘‘ اورحد سے مت گزرو یقینا وہ حدسے گزرنے والوں کو ناپسند کرتاہے۔(الانعام:141)صرف یہی نہیں رب العزت نے تو کھانے پینے میں بھی اسراف وفضول خرچی سے منع کیاہے،فرمایا ’’ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ‘‘ اورخوب کھاؤ اورپیو اور حد سے مت نکلو،بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(الاعراف:31)اورآپﷺ نے بھی یہ اعلان کردیاہے کہ مال کے برباد کرنے کو رب العزت پسند نہیں کرتاہے جیسا کہ سیدنامغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ’’ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلاَثًا ‘‘بے شک رب العزت نے تمہارے لئے تین باتوں اورتین کاموں کو ناپسند کیا ہے، نمبر ایک’’ قِيلَ وَقَالَ ‘‘ فضول بات کرنے اور ہروقت بک بک کرتے رہنا رب کو ناپسند ہے،نمبر دو’’ وَإِضَاعَةَ المَالِ ‘‘ اور اپنے مال ومنال کو ضائع وبربادکرنا یہ بھی رب کو ناپسند ہے اورنمبر تین’’ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ ‘‘بیجا سوال کرنے کو بھی رب ناپسند کرتاہے۔(بخاری:1477)ایک طرف اللہ اور اس کے رسولﷺ کایہ فرمان اور دوسری طرف آج کل کے مسلمانوں کی حالت اورعالم یہ ہے کہ آج کل کے مسلمانوں کی شادیوں میں جتنی زیادہ فضول خرچیاں کی جاتی ہے ،جتنا رسم ورواج کو اپنایاجاتاہےاتنی زیادہ شاید ہی کوئی قوم کرتی ہوگی،دیکھا یہ جاتاہے کہ مسلم شادیوں میں بے دریغ پانی کی طرح روپیوں اورپیسوں کو بہایاجاتاہے،لاکھوں روپئےقسماقسم کے پکوان اورطرح طرح کے فنکشنوں اور رسم ورواج پر خرچ کئے جاتے ہیں ،صرف یہی نہیں بلکہ لاکھوں روپئے تو شادی ہال کو مزین کرنے اوردولہے ودولہن کے اسٹیج کو خوبصورت بنانے پر خرچ کردئے جاتے ہیں ،اسی طرح سےاب تو مسلم گھرانے کی شادیوں میں مردوزن کےبیجا اختلاط کا بھی عام چلن ہوگیاہے اوران سب حرکات وسکنات کو یہ کہہ کر جائز ٹھہرایاجاتاہے کہ شادی تو صرف ایک بار ہوتی ہے باربار نہیں،کوئی کہتا ہے کہ میرا تو ایک ہی بیٹا ہے اب اس کی شادی میں نہیں کریں گے تو پھر کب کریں گے،کوئی کہتاہے کہ اگر ہم اپنے اسٹیٹس اور اپنی حیثیت کے مطابق خرچ نہیں کریں گے تو لوگ کیا کہیں گے؟سماج ومعاشرہ کیا کہے گا؟لوگ تھوکیں گے؟یعنی لوگوں کو خوش کرنے کے لئے مہنگی سے مہنگی شادیاں کی جاتی ہیں اور طرح طرح کے رسم ورواج کو اپنایا جاتاہے،لوگ کیا کہیں گے یہی سوچ کر اپنا اسٹیٹس اور اپنی حیثیت دکھانے اور بتانے کے لئے قسما قسم کے پکوان کوپکواتے ہیں مگر دیکھا اور سنا یہ گیا ہے کہ لوگ مرغ مسلم کھاکربھی کچھ نہ کچھ نام رکھ ہی دیتے ہیں تو جو لوگ بھی یہ سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے تو ایسے لوگ سن لیں کہ لوگ تو آخر میں بس یہی کہیں گے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

میرے دوستو! لوگ کیاکہیں گے یہ سوچ ایک ایسی سوچ ہے جو ایک انسان کو جہنمی بنادیتی ہے ،اگرآپ کو میری باتوں پر یقین نہ ہورہاہوتوپھر ذرا ابوطالب کے اس واقعے کو یاد کیجئے کہ جب ان کا آخری وقت تھا توحبیب کائناتﷺ نے ان کو ان کے آخری وقت میں یہ تلقین کی کہ اے میرے چچا جان ’’ قُلْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ ‘‘ آپ اسلام قبول کرلیں اور کم سے کم لاالہ الا اللہ تو کہہ لیجئے تا کہ میں اس کو دلیل بنا کر آپ کے حق میں اپنے رب کے حضور سفارش کرسکوں! تو ان کے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ابوجہل او رعبداللہ بن ابی امیہ نے کہا کہ اے ابوطالب!’’ تَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ ‘‘کیا آپ آخری وقت میں اپنے باپ دادا کا دین چھوڑدیں گے؟یہ دونوں برابر یہ باتیں کہتے رہیں کہ اگرآپ مسلمان ہوگئے تو لوگ کیاکہیں گے؟لوگ کیا سوچیں گے؟یہ سب سننا تھا کہ انہوں نے لاالہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا اور ان کا آخری جملہ تھا کہ’’ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ المُطَّلِبِ ‘‘ میں اپنے باپ دادا کے دین پر مررہاہوں۔(بخاری:3884)اورمسلم شریف کی روایت میں ہے کہ جب آپﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ’’ لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي قُرَيْشٌ يَقُولُونَ إِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ ‘‘اگرقریش میرے اوپر عیب نہ لگاتے تومیں تمہاری آنکھوں کے سامنے ابھی اسلام قبول کرلیتا مگر وہ لوگ کہیں گے کہ دیکھو ابوطالب آخری وقت میں ڈر گیا اورڈر کراپنا دین بدل دیا۔(مسلم:25)دیکھا اور سنا آپ نے کہ اس سوچ نے کہ لوگ کیا کہیں گے؟لوگ کیا سوچیں گے؟لوگ طعنے ماریں گے نےایک انسان کی آخرت تباہ وبرباد کردی تو آپ کبھی بھی یہ نہ کہاکرو کہ لوگ کیا کہیں گے ؟بلکہ یہ سوچو کہ اگر میں نے یہ کیاتو اپنے رب کو کیا منہ دکھاؤں گا،یہ سوچو کہ میرا رب کیا کہے گا!اسی طرح سےکوئی کہتاہے کہ یہ شادی ہےبھائی جنازہ تھوڑی ہے اسی لئے دھوم دھام سے کرو،خوب ناچو ،گاؤ اور انجوائے کرو یعنی کے مزے لو!اللہ کی پناہ!کتنی بڑی حماقت وجہالت ہے کہ ایک ناجائز کاموں کو جائز ثابت کرنے کے لئے لوگ کس طرح سے کیسے کیسے حیلے وبہانے پیش کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکموں کی خلاف ورزی کرتے ہیں !جس کا نتیجہ ہم اورآپ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پوری امت مسلمہ ہلاکت وبربادی کے دہانے پر کھڑی ہے۔واللہ المستعان۔

میرے دوستو!ہم مسلمان ہیں اور ہماری شریعت کا یہ حکم ہے کہ ہم اپنے زندگی کے تمام معاملات کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرمان کے مطابق گزاریں،ہماری ہرخوشی وغم ،شادی وبیاہ ،لین دین،ہمارے آپس کےمعاملات وتعلقات یہ سب شریعت کے احکام کے مطابق ہوں،یہ تو کفارومشرکین کا شیوہ اوروطیرہ ہے کہ وہ بے لگام ہوتے ہیں اورمن مانی زندگی گذارتے ہیں،ہم تو مسلمان ہیں اورہماری خواہشات یہ سب اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع ہونی چاہئے،اس لئے اگر آپ حقیقی معنوں میں مسلمان ہیں تو پھر آپ اپنے شادی بیاہ میں اس طرح کی باتیں نہ کہاکریں کہ شادی تو زندگی میں ایک بار ہوتی ہے!یہ شادی ہے جنازہ تھوڑی ہے بلکہ یہ کہاکرو کہ شادی وبیاہ ہویاپھر غم والم ہو ہم تو وہی کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہوگا۔

عورتوں کا بے پردہ ہونا اور پھر یہ کہنا کہ ہمارا دل تو صاف ہے

میرے اسلامی بھائیو اور بہنو!ہم اور آپ اس بات سے اچھی طرح سے واقف ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا عورتوں کے نام یہ واجبی اور فرضی حکم ہیں کہ وہ غیرمحرم سے پردہ کیا کریں؟اپنے چہروں او راپنی خوبصورتی وزیبائش کو چھپاکررکھاکریں جيسا كه فرمان باري تعالي ہے’’يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا ‘‘ اے نبیﷺ!اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکالیاکریں،اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایاکرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی،اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔(الاحزاب:59)دیکھئے پردہ کےفوائد کو بیان کرتے ہوئے رب العزت نے یہ کہاکہ پردہ کرنا یہ باحیا اور شریف زادیوں کی پہچان وصفت ہے،پردہ کرنے والی عورتوں کو چھیڑچھاڑکرنے کی جرأت کسی کو نہیں ہوتی ہے،پردہ کے بارے میں اتناواضح حکم ربانی اور حکم رسولﷺ کے ہونے کے باوجود بھی بہت سارے مسلمان مرد اپنی اپنی بچیوں اور اپنی اپنی خواتین کو پردہ نہیں کراتے اورپھر جب انہیں اس بات پر روکا اور ٹوکا جاتاہے تو وہ فوراً یہ جواب دیتے ہیں کہ بھائی صاحب ہماری بیٹی کا دل صاف ہے،ہماری خواتین ایسی ویسی خواتین نہیں ہیں،ہم کو ہماری بیٹیوں پر بہت بھروسہ ہے وغیرہ وغیرہ،کاش کہ اس طرح کے جملوں کو بولنے والے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ سب سے پہلے پردہ کو حکم رب العزت نے کن لوگوں کو کن لوگوں سے کرنے کا حکم دیا تھا؟اگرآپ کو نہیں پتہ تو چلئے ہم آج آپ کویہ بات بتادیتے ہیں تاکہ اس طرح کی سوچ وبچار رکھنے والے لوگ عقل کی ناخن لیں اور اپنی اپنی بیٹیوں اورعورتوں کی عزتوں کی حفاظت کریں !میرے بھائیو اور بہنو!سن لو اس کائنات میں سب سے پہلے اللہ رب العزت نے پردہ کرنے کا جو حکم دیا تھا وہ ان خواتین کو دیا تھا جو دورنبوت میں باحیات تھیں،جونبی ﷺ کی بیویاں تھیں ،جو نبیﷺ کی بیٹیاں تھیں ،جوصحابیات تھیں، جو خاتون جنت تھیں ،جو خاتون جنت کی سرادر تھیں اورجودیگر صحابۂ کرام کی بیویاں تھیں ان کو پردہ کرنے کاحکم دیا گیاتھا !کس سے اورکن لوگوں سے پردہ کرنے کاحکم دیا گیا تھا؟ان نیک خواتین کو صحابہ ٔ کرام سے پردہ کرنے کا حکم دیاگیا تھا،

ان خواتین کو ان خداترس ہستیوں سے پردہ کرنے کاحکم دیا گیا تھا جن کے اعلی اخلاق وکردار کی گواہی خود رب العزت نے دی

تھی،دورنبوت کی خواتین کو ان بزرگ ہستیوں سے پردہ کرنے کا حکم دیاتھا جوجنتی تھے ،جومحبوب خدا اور محبوب رسول تھے،سنئے رب کا حکم جو ان پاکباز اورمقدس خواتین کو مقدس اور پاکباز لوگوں سے پردہ کرنے کا حکم دیاگیا تھا ’’ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ‘‘مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں،یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے،لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالی سب سے خبردار ہے۔پھر آگے اسی آیت کے بعد فرمایا ’’ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ ‘‘ اورمسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اوراپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کوظاہرنہ کریں،سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں،اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔(النور:30-31)ذرا سوچئے اور غوروفکر سے کام لیجئے کہ رب العالمین واحکم الحاکمین نے پردہ کرنے کا حکم کن کو کن لوگوں سے دیا تھا؟بھلابتلائیے کہ کیاایسے لوگ سے کسی کو کوئی خطرہ ہوسکتاتھا ؟نہیں ہرگز نہیں!مگر پھر بھی رب العزت نے ان پاکبازعورتوں کو پاکبازلوگوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا تو پھر جب آج کل کےدورمیں جہاں ہر طرف فحاشی وبے حیائی ہے،جہاں ہرطرف گندہ ماحول ہے،جہاں ہرطرف عریانیت ہے،جہاں ہرطرف گندہ مزاج رکھنے اور گندی سوچ رکھنے والے لوگ موجود ہیں،جہاں ہرطرف ہوس کے پجاری موجودہیں،جہاں ہرطرف اور ہرآئے دن ریپ ومرڈر ہوتے رہتےہیں تو وہاں کے لوگوں کا دل کیسے صاف رہ سکتاہے اور ایسے گندے ماحول میں بغیرپردہ کے کوئی کیسے اپنی عزت کی حفاظت کرسکتی ہے؟پتہ یہ چلاکہ کسی کا یہ کہنا کہ ہمارا دل تو صاف ہے،ہماری بچی کا دل تو صاف ہے ،ہماری بچی پر ہم کو بھروسہ ہے یہ سراسر حماقت وجہالت ہے۔

نظربازی کرنا اور پھر یہ کہنا کہ ایک نظر تو معاف ہے

برادران اسلام!بہت سارے لوگوں کو یہ بھی دیکھا جاتاہے کہ وہ غیرمحرم عورتوں اورخواتین کو گھورگھور کر ہوس کی نظروں سے دیکھتے رہتے ہیں اورجب انہیں اس حرکت سے باز رہنے کی تلقین کی جاتی ہے تو فوراً یہی جواب دیتے ہیں کہ بھائی ایک نظر معاف ہے،ایک نظر دیکھنا حلال ہے،ایک باردیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے وغیرہ وغیرہ،جولوگ بھی اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں اور اس طرح کی باتیں کرتے ہیں ایسے لوگوں کو میں یہ بات بتادوں کہ کسی غیرمحرم کی طرف دیکھنا یہ گناہ ہے اور یہ آنکھوں کا زنا ہے،نیز کسی مرد کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی اجنبی وغیرمحرم عورتوں کو گھورگھور کردیکھے ،اللہ رب العزت نے ہرمسلمان مرد وعورت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں ،جیسا کہ مردوں کو حکم دیتے ہوئے رب العزت نے کہا کہ ’’ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ ‘‘مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور خواتین کو بھی یہی حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ ‘‘اورمسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔(النور:30-31) دیکھا اور سنا آپ نے کہ رب العزت نے واضح حکم دیا ہے کہ ہم سب اپنی اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں اورکسی غیرمحرم کی طرف نہ دیکھیں اوریہ بات یاد رکھ لیں کہ نظر بازی یہ آنکھوں کا زنا ہے جیسا کہ حبیب کائناتﷺ نے فرمایا ’’ كُتِبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكٌ ذَلِكَ لَا مَحَالَةَ ‘‘ کہ اللہ تعالی نے ابن آدم پر اس کےحصے کا زنا لکھ دیا ہے جسے وہ لامحالہ حاصل کرکے رہے گا یعنی کہ وہ ضروربالضرور اس کا مرتکب ہوگا،پس ’’ فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الِاسْتِمَاعُ وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلَامُ وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَا ‘‘ آنکھ کا زنا جس کا دیکھنا حرام ہے اس کو دیکھنا ہے،کان کا زنا ان باتوں کا سننا ہے جو باتیں سننی حرام ہے اورزبان کا زنا حرام بات کہنا ہے اور ہاتھ کا زناان چیزوں کو چھونا ہے جس کو چھونا حرام ہے اور پاؤں کا زنا حرام کاموں کے لئے چل کرجانا ہے،’’ وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ وَيُكَذِّبُهُ ‘‘اور دل کا زناخواہش اورتمنا ہے اورآخر میں شرمگاہ ان باتوں کو سچ کرتی ہے یا پھر جھوٹ۔(مسلم:2657) دیکھا اورسناآپ نے کہ آنکھوں کا زنا غیرمحرم عورتوں کی طرف ٹکٹکی لگاکردیکھناہےمگربہت افسوس کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑرہاہے کہ آج یہ گناہ بہت عام ہوچکاہے،بڑے بڑے دیندار اورحاجی ونمازی کہلانے والے لوگ اس مرض میں مبتلاہیں کہ وہ چلتے پھرتے نظربازی کرتے رہتے ہیں ،یاپھر اپنے موبائل کے اسکرین پر ہیروئن کی تصویروں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اور زوم کرکردیکھتے رہتے ہیں۔استغفراللہ۔میرے مسلمان بھائیو اوربہنو!اس گناہ سے بچو اور اپنے آقاﷺ کا یہ فرمان یاد رکھو کہ ’’ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَإِنَّ لَكَ الْأُولَى وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ ‘‘ نظربازی نہ کیا کرو،ٹکٹکی باندھ کرنہ دیکھا کرو،آنکھیں چارنہ کیاکرو کیونکہ تمہارے لئے پہلی اچانک والی نظر تو معاف ہے مگر دوسری بار پھر سے نگاہ ڈالنا یہ تمہارے لئے جائز نہیں ہے۔(ابوداؤد:2149،حسنہ الالبانیؒ)سنا آپ نے کہ غیرمحرم عورتوں پر دوبارہ نگاہ ڈالنے سے آپﷺ نے روکا ہے ،اسی طرح سے سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ سَأَلْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نَظَرِ الْفُجَاءَةِ ‘‘ میں نے آپﷺ سے غیرمحرم خواتین پر اچانک نظر پڑجانے کے بارے میں سوال کیا تو ’’ فَأَمَرَنِي أَنْ أَصْرِفَ بَصَرِي ‘‘ آپﷺ نے مجھے یہ حکم دیا کہ ميں اپنی نگاہ کو پھیرلوں اورٹکٹکی باندھ کرنہ دیکھوں۔(مسلم:2159)

حرام کمائی کرنا اورپھریہ کہنا کہ یہ تو سب کررہے ہیں! میں کررہاہوں تو کیا ہوگیا؟

میرے دوستو!یہ دورمادیت کا دورہےاورآج کے دورکا ہرانسان روپیہ پیسہ حاصل کرنا چاہ رہاہے چاہے وہ جس طرح سے اور جس طریقےسےبھی ہو،ہرانسان کی تگ ودو بس یہی ہے کہ وہ کسی طرح سے مالدار بن جائےچاہے وہ حرام طریقے سے ہی کیوں نہ ہو!یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دور کا کوئی بھی انسان یہ فکرنہیں کررہاہے کہ اس کی کمائی کیسی ہے!وہ کہاں سے کمارہاہے!وہ کیسے کمارہاہےحلال طریقے سے یاپھر حرام طریقے سےاور یہی وہ زمانہ جس کے بارے میں حبیب کائناتﷺ نے پیشین گوئی کی تھی کہ ’’ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لاَ يُبَالِي المَرْءُ بِمَا أَخَذَ المَالَ أَمِنْ حَلاَلٍ أَمْ مِنْ حَرَامٍ ‘‘ لوگوں پر ایک دوراورایک وقت ایسا آئے گا کہ آدمی اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے مال کیسے حاصل کیا ہے حلال طریقے سے یا پھر حرام طریقے سے۔(بخاری:2083)اور یقینا یہی وہ زمانہ اوردور ہے جہاں پرہرانسان کو بس روپیہ پیسہ اور دھن ودولت جوڑنے کی فکرہے چاہے وہ جائز طریقے سے ہو یاپھر ناجائز طریقے سےاورآج کل سماج ومعاشرے میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو حرام کمائی کرتے ہیں،جو لوگوں کے ساتھ دھوکا دہی اور فراڈ کرتے ہیں اور جب انہیں اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ بھائی اس طرح سے کمائی کرنی حرام وناجائز ہے تو وہ فوراًیہی جواب دیتے ہیں کہ کیامیں اکیلے ایساکررہاہوں کیا؟سب لوگ تو ایسا ہی کرتے ہیں،ہرکوئی تو یہی کرکے مالدار بنے ہیں ،میں کررہاہوں تو کیا حرج ہے تو جولوگ میں لوگوں کی دیکھادیکھی اس طرح کی کمائی کررہے اوراس طرح کے الفاظ بولتے ہیں تو ایسے لوگ یہ بات سن لیں کہ ہرایک کو اپنی اپنی کمائی کا حساب وکتاب دیناہوگا،وہاں پر کوئی یہ کہہ کرنہیں بچ سکے گا کہ میں نے لوگوں کو جوکرتے دیکھامیں نے بھی وہی کیا،ہرایک کو ایک ایک پائی کا حساب دینے پڑے گا کہ کہاں سے کمایا اور پھر کہاں کہاں پر خرچ کیاجیسا کہ حبیب کائناتﷺ نے فرمایا کہ’’ لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ ‘‘ جب ایک انسان اللہ کے سامنے میں حساب وکتاب دینے کے لئے کھڑاہوگا تو وہ اس وقت تک ہٹایانہ جائے گا.

جب تک کہ وہ پانچ چیزوں کے بارے میں جواب نہ دے دے،نمبر ایک ’’ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ ‘‘ کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں ختم کی

؟نمبردو’’وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ ‘‘کہ اپنی جوانی کو اس نے کس کام میں خراب وبرباد کیا؟نمبر تین ’’ وَعَنْ عِلْمِهِ مَاذَا عَمِلَ فِيهِ ‘‘ کہ اس نے جو علم حاصل کیاتھا اس کے مطابق عمل کیا کہ نہیں ؟اورنمبر چاراورپانچ ہرایک انسان سے یہ سوال ہوگا کہ ’’ وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ ‘‘مال کہاں کہاں سے کمایا اور پھر کہاں کہاں خرچ کیا سب کا جواب دو۔(صحیح الجامع:7299،الصحیحۃ:946،ترمذی:2417) اے میرے بھائیوذرا فرمان نبویﷺ کو اپنے دل ودماغ میں بیٹھا لو کہ سب کو تنہاتنہا جواب دینا ہے وہاں پر سماج ومعاشرے کےلوگ ساتھ دینے نہیں آئیں گے اور نہ ہی وہاں پر کوئی کسی کے کچھ کام آئے گا،آپ کماؤگے آپ کو جواب دینا پڑے گااوراسی طرح سے سب کےسب اپنے اپنے کرتوت کا مزہ چکھیں گےاس لئے یہ نہ کہاکرو کہ سب کررہے ہیں میں کررہاہوں تو کیا حرج ہے؟زیادہ کمانے کے چکر میں اورمال ودولت کی زیادتی کی حرص وہوس میں اپنی آخرت کو برباد نہ کروکیونکہ جوکچھ بھی کماؤگے سب یہی چھوڑ کرجاؤگے، میرے دوستو!ذراسوچو اورغوروفکرکرو کہ کماؤگےتم ،جی توڑمحنت کروگے تم،دن رات ایک کرکے پائی پائی جوڑکردھن دولت جمع کروگے تم اور پھر اس مال ومنال سےعیش وموج کریں گے کوئی اور،تمہاری کمائی سےمزے اڑائیں کوئی اورمگر حساب وکتاب دیناپڑےگا تم کو ،ان کی دنیاتو تم نےبنادی مگر تم نے اپنے ہاتھوں سے اپنی آخرت کوبربادکرلیااور اس سے بڑا بدنصیب اورکون ہوگا جو دوسروں کی دنیا بنانے کے چکرمیں اپنی آخرت کو برباد کرلےاس لئے دنیا کمانے کے چکرمیں اپنی آخرت کو برباد نہ کرو، دنیا کمانی ہی ہے تو حلال طریقے سے کماؤ اور خوب کماؤ مگر حرام کے قریب نہ جاؤ ،اگرحلال کمائی کروگے تو دنیاوآخرت ہرجگہ شاد کام رہوگے اوراگرحرام کمائی کروگے توپھر تمہاری آخرت برباد ہوجائے گی۔

سودکا لین دین کرنا اور پھر یہ کہنا کہ آج کل کےدورمیں اس کے بغیرکوئی چارہ نہیں ہے

میرے دوستو!شریعت اسلامیہ میں اگر کوئی سب سے بڑا گناہ ہے تو وہ ہے سود ی لین دین کرنا اور سو د کوبڑھاوا دینا ،سودی کاروبار کرنا،سود پر روپئے پیسے لینا اور دینا ،سود کی خطرناکی کا اندازہ تو آپ صرف اس بات سے بھی لگاسکتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے اپنے کلام پاک میں سود کا لین دین کرنے والوں کے خلاف اپنا اعلانِ جنگ کا اعلان کیا ہے اور فرمایاکہ اے لوگو!سود چھوڑدو ’’ فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ‘‘ اوراگرایسانہیں کرتے تو اللہ تعالی سےاوراس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیارہوجاؤ۔(البقرۃ:279)میرے دوستو! اللہ کا یہ کہنا کہ اگر سود نہیں چھوڑوگے تواللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لئے تیارہوجاؤ یہ ایک ایسا جملہ اور ایک ایسا سخت وعید ہے جو کسی اورگناہ کے ارتکاب پرنہیں کہاگیاہے،اب آپ ہی سوچ لیں کہ سود یہ کتنا بڑا گناہ ہے؟ اس سود کے گناہ کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ سود کا گناہ یہ زنا سے بھی بدتر ہے جیساکہ محبوب خداﷺ نے فرمایاكه ’’ دِرْهَمُ رِبًا يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِينَ زِنْيَةً ‘‘ جوآدمی جانتے ہوئے ایک درہم سودکھاتاہے تو اس کا گناہ اللہ کے نزدیک چھتیس بدکاریوں سے سخت ہے۔(الصحیحۃ:1033،احمد:21957)اس سود کے گناہ کو واضح کرتے ہوئے ایک دوسری حدیث میں تو یہاں تک مذکور ہے کہ ’’ الرِّبَا اثْنَانِ وَسَبْعُونَ بَابًا أَدْنَاهَا مِثْلُ إِتْيَانِ الرَّجُلِ أُمَّهُ ‘‘سود كے ستردروازے ہیں اور ان میں سب سے کم تردرجہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زناکرے۔(الصحیحۃ:1871)اللہ کی پناہ!یہ اتنا بڑا گناہ ہے مگر دیکھا یہ جارہاہے کہ اس سود کا لین دین آج مسلم معاشرہ میں بہت عام ہوگیاہے، غیر تو غیر ہے ایک مسلمان ہی سودی کاروبار کررہاہےبلکہ ہم نے تویہاں تک دیکھے ہیں کہ کچھ نادان وکمبخت لوگ فقہ کا ایک باطل فتوی لے کر گھومتے رہتے ہیں اورسود کوجائز قرار دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ یہ ملک دار الحرب ہے اوردارالحرب میں سود کا لینا جائزہے۔اللہ کی پناہ!یہ سود اتنا بڑا جرم ہے مگر لوگ شوق سے اس سودی لین دین کو انجام دیتے ہیں،چھوٹے چھوٹے بہانے بناکر اورمجبوری کا نام لے کر سود کو لوگوں نے حلال کرلیاہے،بلاوجہ میں لوگ سود پر قرضہ لیتے ہیں، بھاری بھرکم بینک سے لون لیتے ہیں اور لون لے کر مکان پر مکان بنائے جاتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ بھائی مجبوری ہے،اس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں ہے،آج کل قرضے کون دیتاہے،الغرض لوگ طرح طرح کے حیلوں اور بہانوں سے اس حرام چیز کو حلال کرلیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ وہ ایسا کرسکتے ہیں مگر یہ بات آپ یاد رکھ لیں یہ سود حرام ہے اور اس میں کسی بھی قسم کی کوئی نرمی اورگنجائش نہیں ہے،سود کا لینادینا،کاروبارکرنا،کسی کو سود دلانا،سود پرگواہ بننا یہ سب حرام ہے جیسا کہ سیدنا جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ ‘‘آپﷺ نے لعنت بھیجی سود کھانے والے اور کھلانے والے پر،سود لکھنے والے اور سود پر گواہ بننے والوں پر اور کہاکہ یہ سب کے سب گناہ میں برابرہیں۔(مسلم:1598)

نماز نہ پڑھنا اورپھر یہ کہنا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے

میرے دوستو!ہرمسلمان یہ جانتاہے کہ اس کے اوپر نماز فرض ہے مگر وہ نماز پڑھتانہیں ہے،آج کل کے مسلمانوں کے پاس ہرکام کرنے کے لئے وقت ہے مگر نماز پڑھنے کےلئے وقت نہیں ہے،آپ کسی کو بھی پوچھئے اور کہئے کہ چلو بھائی نماز پڑھنے تو بولتاہے کہ بھائی میں بہت بزی ہوں،بہت مصروف ہوں ،میرے پاس وقت ہی نہیں ہے،میرے پاس دوکان میں گماشتہ نہیں ہے،میراگھر مسجد سے بہت دور ہے،کوئی کہتاہے کہ میرے پاس سواری نہیں ہے،کوئی کہتاہے کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے،کوئی کہتاہے کہ آئندہ جمعہ سے میں پکا نمازی بن جاؤں گا غرض یہ کہ نماز نہ پڑھنے کے لئے لوگوں کے پاس ہزاربہانے ہوتے ہیں مگراسی کے برعکس اگرکسی کویہ کہاجائے کہ بھائی چلو دعوت میں جاناہے تو فورا ً یہ کہتاہے کہ ذرا رکو میں دومنٹ میں تیارہوکرآتاہوں اور وہ انسان ہرکام کاج کو چھوڑ کر اور تمام مصروفیت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہرطرح کی دعوتوں اورفنکشنوں میں حاضرہوجاتاہے مگرہائے افسوس انسان کو اس بات کی توفیق نہیں ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے گھرمیں حاضری دے سکے،

جولوگ بھی اس طرح کے حیلوں اور بہانوں سے نماز سے دوررہتے ہیں تو ایسے لوگ سن لیں کہ ان کا دین وایمان خطرے میں ہے

جیسا کہ سیدنا عمرؓ کا یہ فتوی ہے کہ ’’ لَا حَظَّ فِي الْإِسْلَامِ لِمَنْ تَرَكَ الصَّلَاةَ ‘‘نماز چھوڑنے والے کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔(مؤطا امام مالک:117،ارواء الغلیل:209)اللہ کی پناہ!یہ تو سیدنا عمربن خطابؓ کا فتوی آپ نے سنااب ذرادیگر صحابۂ کرام کی رائے بھی سن لیجئے ان لوگوں کے بارے میں جو نماز سے دور رہتے ہیں ،سیدنا عبداللہ بن شقیق ؓ کہتے ہیں کہ ’’ كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرَوْنَ شَيْئًا مِنَ الأَعْمَالِ تَرْكُهُ كُفْرٌ غَيْرَ الصَّلَاةِ ‘‘رسول اللہﷺ کے اصحاب تمام اعمال میں سے کسی چیز کو چھوڑنا کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے۔(ترمذی:2622،الصحیحۃ:87)اوریہ بھی سن لیں کہ نماز میں سستی وکاہلی کرنا اوراس طرح کے حیلے وبہانے کرکے نماز سے دوررہنا یہ منافقانہ روش ہے جیسا کہ قرآن کایہ اعلان ہے ’’ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا ‘‘بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کررہے ہیں اور وہ انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں،صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں،اور یاد الٰہی تو یونہی سی برائے نام کرتے ہیں۔(النساء:142)افسوس صد افسوس انسان کے پاس گھنٹوں موبائل کوچھیڑنے ،ریلس ویوٹیوب اورفیس بک وغیرہ دیکھنے،گھنٹوں کرکٹ کا میچ دیکھنے اور گھنٹوں بازاروں کا چکر لگانےکے لئے وقت ہے مگر 5/10 منٹ نماز پڑھنے کے لئےوقت نہیں ہے،آج ایک مسلمان دو/چاررکعتیں نماز پڑھنے سےبھاگ رہاہے اورجی چرارہاہے مگر ان نمازوں کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اسے مرنے کے بعدضروربالضرورہوگاجیسا کہ سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ ایک ایسے قبرکے پاس سے گذرے جسے حال فی الحال میں ہی اس میں میت کو دفن کیا گیاتھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ رَكْعَتَانِ خَفِيفَتَانِ مِمَّا تَحْقِرُونَ وَتَنْفِلُونَ يَزِيدُهُمَا هَذَا فِي عَمَلِهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ بَقِيَّةِ دُنْيَاكُمْ ‘‘دوركعت نماز بهت هلكي هوتي هيں اور تم لوگ انہیں حقیر ومعمولی اور زائد بھی سمجھتے ہولیکن یہی دو رکعتیں اگریہ صاحب قبر اپنے عمل میں زیادہ کرلیتاتو اس کی نظر میں یہی دورکعت نماز تمہاری دنیاومافیہا سے بھی زیادہ محبوب ہوتی۔(الصحیحۃ:1388)اللہ اکبر!سنا آپ نے کہ اس نماز کی کیااہمیت ہے آج انسان کو اس کی قدر نہیں ہے مگرجب مرجائے گا اور قبرمیں ڈالاجائے گا تب وہ اس دو رکعت نماز کے لئے دنیاومافیہا اور اس کی ساری دھن ودولت کو ٹھوکرمارکراداکرنا چاہے گا مگر تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہوگی اس لئے میرے بھائیو اور بہنو!نماز قائم کرو اور نماز میں سستی وکاہلی سے بچتے ہوئے اپنے دین وایمان کی حفاظت کرواوریہ بات یادرکھ لو کہ جہنم میں جانے کے بعدہرمسلمان سب سے پہلے تمام عبادتوں میں نماز کو ہی یادکرے گا جیساکہ سورہ مدثر کے اندررب العزت نے کیاہی خوب نقشہ کھینچا ہے کہ جب اہل جنت جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ ارے بھائی تم تو دنیا میں بہت اچھے انسان تھے،طرح طرح کی نیکیاں بھی تم انجام دیتے تھے تو پھر یہاں جہنم میں کیسے پہنچ گئے’’مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ‘‘ تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا؟تو جہنمی یک لخت یہی کہیں گے کہ ’’ لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ‘‘ہم نمازی نہ تھے۔(المدثر:42-43)دیکھا اورسنا آپ نے کہ لوگ تو آج نماز پڑھنے کے لئے طرح طرح کےحیلےو بہانے کرتے ہیں مگرایسے ہی لوگ کل بروز قیامت اسی نماز کے لئے ترسیں گے،اسی لئے اے میری بھائیو اور بہنو!ایسی نوبت آنے سے پہلے پہلے نماز ی بن جاؤ۔

گانے سننا اورفلمیں دیکھنا اورپھر یہ کہنا کہ یہ تو ٹائم پاس کرنے کی چیز ہے

برادران اسلام!آج کل لوگوں کو جب دیکھئے تب اپنے کانوں میں بلوٹوتھ لگاکر گانے ومیوزک سنتے رہتے ہیں اور پھر یہ کہتے ہیں کہ ہم تو بس ٹائم پاس کےلئے گانے سن رہے ہیں،ہم تو بس ٹائم پاس کے لئے فلمیں دیکھتے ہیں اور خواتین یہ کہتی ہیں کہ ہم تو بس دل بہلانے اور اپنے اپنے گھروں میں وقت گذارنے کےلئےسیریئل دیکھتیں ہیں جب کہ یہ گانے سننا اور فلمیں دیکھنا بھی کبیرہ گناہوں میں سے ہے،آج لوگوں نے اس گانے کو ٹائم پاس کے نام پر حلال کرلیاجب کہ اس گانے کی آواز کو ہی نبیٔ اکرم ومکرم ﷺ نے ملعون قرار دیاہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ چیز ہی حرام ہےجیسا کہ فرمان نبویﷺ ہے ’’ صَوْتَانِ مَلْعُونَانِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ صَوْتُ مِزْمَارٍ عِنْدَ نِعْمَةٍ وَصَوْتُ رَنَّةٍ عِنْدَ مُصِيبَةٍ ‘‘دو آوازیں دنیاوآخرت میں ملعون ہیں نمبرایک خوشی کے وقت گانے بجانے کی آواز او رمصیبت کے وقت رونے کی آواز۔(الصحیحۃ:428،صحیح الجامع للألبانیؒ:3801)

ٹائم پا س کے نام پر گاناسننے والے نوجوانو! اس ملعون حرکت سے باز آجاؤ اور اللہ کے اس عذاب سے ڈرو جس کا تذکرہ حبیب کائناتﷺ نے کیا کہ ’’ يُعْزَفُ عَلَى رُءُوسِهِمْ بِالْمَعَازِفِ وَالْمُغَنِّيَاتِ يَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ وَيَجْعَلُ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ ‘‘میری امت کے کچھ لوگوں کے سروں کے پاس آلات موسیقی یعنی کہ گانے وسونگس بجائے جائیں گے اور گانے والیاں گائیں گی جبھی اللہ تعالی انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کئی لوگوں کو بندراور سور بنادے گا۔(ابن ماجہ:4020،الصحیحۃ:90)اللہ کی پناہ!دیکھا اور سنا آپ نے کہ آپﷺ نے کیا پیشین گوئی کی تھی کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ لوگوں کے سروں کے پاس گانے بجانے کے آلات بجائے جائیں گے اور آج ہم اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے ہیں کہ ہرکوئی اپنے سروں کے پاس اپنے اپنے کانوں میں بلوٹوتھ لگاکر گانے سننے میں مگن رہتاہے،اس لئے اے لوگو!اللہ کے اس عذاب سے ڈرو اور اے گاناسننے والے نوجوان نسلوں! حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا یہ قول یاد رکھ لو کہ ’’ الْغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ فِي الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ وَإِنَّ الذِّكْرَ يُنْبِتُ الْإِيمَانَ فِي الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ ‘‘گانا دلوں میں یوں نفاق پیداکرتاہے جیسے کہ پانی کھیتی کو پیداکرتاہے اور یقینا ذکرالٰہی سے دلوں میں ایمان ایسے ہی تروتازہ رہتا اور جگمگاتاہے جیسے کہ پانی کھیتی کو پیداکرتاہے۔(بیہقی:21007،تحریم آلات الطرب للألبانی:1/148)اس لئے اے لوگوں اگر تم اپنے ایمان کو بچانا چاہتے ہو تو گانا سننے سے بچو اور ذکرالٰہی میں ہمیشہ مشغول رہاکرو۔

Please follow and like us:
Pin Share

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *