close button

The war between Israel and Palestine is a sign of doomsday, Hamas

کچھ جنگوں کے بارے میں

رسول اکرم علی نے جس طرح دوسرے فتوں کے بارے میں امت کو آگاہ فرمایا ہے اسی طرح بعض جنگوں کے بارے میں بھی پیش گوئیاں فرمائی ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ امت محمدیہ کا سب سے پہلا جہاد، سرور عالم حضرت محمد مصطفی ملا لیلی نام کی قیادت میں مشرکین مکہ کے خلاف میدان بدر میں لڑا گیا اور سب سے آخری جہاد سید نا حضرت عیسی علیہ کی قیادت میں یہودیوں کے خلاف سرزمین فلسطین میں لڑا جائے گا۔ معرکہ بدر سے لے کر قتال وجال تک رسول اکرم علی علی ایم نے چار اہم فتوحات کی پیش گوئی فرمائی ہے۔ جس کا ہم یہاں مفصل ذکر کرنا چاہتے ہیں۔

آپ مسلم کا ارشاد مبارک ہے ” تم لوگ جزیرۃ العرب کے لوگوں سے جہاد کرو گے اللہ تعالی (تمہارے ہاتھوں ) اسے فتح کر دے گا پھر تم اہل فارس کے خلاف جہاد کرو گے اللہ تعالی اسے بھی فتح کر دے گا ، پھر تم اہل روم کے خلاف جہاد کرو گے اللہ اسے بھی فتح کر دے گا پھر تم دجال کے خلاف جہاد کرو گے اور اللہ اسے بھی فتح کر دے گا ۔” (مسلم)

اس حدیث شریف میں درج ذیل چار فتوحات کا ذکر کیا گیا ہے

جزيرة العرب کی فتح : رسول اکرم علی علیم کی حیات طیبہ میں مختلف غزوات مقدسہ کے بعد جزیرۃ العرب فتح ہوا اور آپ ملی یم کی یہ پیش گوئی آپ مسلم کی حیات مبارکہ میں ہی پوری ہوگئی۔ یا درہے کہ جزیرۃ العرب کے مفتوحہ علاقہ درج ذیل تھے ۔ مکہ ، مدینہ، جدہ، طائف ، حنین ، رابغ، ینبوع، خیبر، مدائن صالح، تبوک، دومتہ الجندل ایله، یمامہ، بحرین (الحساء)، عمان، حضرموت ، صنعاء حمیر اور نجران – جزیرۃ العرب اسلام سے پہلے سلطنت فارس کا حصہ تھا۔ اگر چہ جزیرۃ العرب متعدد غزوات کے نتیجہ میں فتح ہوا لیکن حدیث شریف میں آپ ملی لی ہم نے اختصار کے ساتھ صرف جزیرۃ العرب کی فتح کا ذکر فرما دیا۔

فارس کی فتح : عہد فاروقی میں مخلف لڑائیوں کے بعد فارس بھی مفت ہوا۔ گو یا آپ ملا نام کی یہ پیش گوئی عہد صحابہ میں پوری ہوگئی ۔ یادر ہے کہ رسول اکرم صلی پی ٹم کی بعثت مبارک سے پہلے فارس

اور روم ہی دنیا کی دو بڑی طاقتیں تھیں۔ اہل فارس کا مذ ہب آش پاتی تھا اور یہ گری کہلاتے تھے۔ اسلام سے پہلے سلطنت فارس میں درج ذیل علاقے شامل تھے ۔ جزیرۃ العرب ( تفصیل پہلے گزر چکی ہے ) اور یمن، حیرہ، ہمدان ، کرمان، رے، قزوین، بخارا ، بصره ، قادسیه ، اصفهان ، خراسان ( اب افغانستان ) تبریز، آذربائیجان، ترکمانستان، سمرقند، بخارا ، تر مداور وسط ایشیاء کی بعض دیگر ریاستیں بھی سلطنت فارس میں شامل تھیں ۔ فارس کے بادشاہ ‘سری” کے بارے میں آپ علم کا ارشاد مبارک ہے ” کسری ہلاک ہو گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہوگا ۔” (مسلم ) جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک دفعہ جب کسری کی سلطنت ٹوٹ جائے گی تو پھر مجوسیوں کی دوبارہ ویسی سلطنت بنے گی نہ ہی کوئی کسری کہلا سکے گا ۔

چنانچہ جیسا آپ سلیم نے ارشاد فر مایا تھا ویسا ہی ہوا۔ روم کی فتح حدیث شریف میں تیسرے نمبر پر روم کی فتح کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ جس طرح جزیرة العرب کی فتح متعدد غزوات کا نتیجہ تھی اور فارس کی فتح کے لئے بھی مسلمانوں کو کئی جنگیں لڑنا پڑیں اسی طرح روم کی فتح سے پہلے بھی مسلمانوں کی عیسائیوں سے کئی جنگیں ہوں گی ، جن میں سے بہت سی ہو چکی ہیں آج بھی ہورہی ہیں اور بہت سی آئندہ بھی ہوں گی جو بالآخر روم کی فتح پر منتج ہوں گی۔ ان شاء اللہ بعض اہل علم کے نزدیک دوسری اور تیسری صدی ہجری میں جب مسلمانوں نے یورپ کے بعض ممالک فتح کئے اس وقت اٹلی بھی فتح ہوا ، روم کی فتح سے وہی فتح مراد ہے لیکن حدیث شریف کا سیاق وسباق اس موقف سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حدیث شریف میں واضح طور پر یہ پیش گوئی موجود ہے کہ روم کی فتح کے فورا بعد دجال کا ظہور ہوگا، جس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث شریف میں جس فتح کا ذکر

ہے وہ قیامت کے قریب ظہور دجال سے قبل ہوگی ۔ ان شاء اللہ ! یادر ہے کہ رسول اکرم صلی علی ظلم کے زمانہ مبارک میں فارس کی طرح روم بھی دنیا کی دوسری بڑی طاقت تھی جس کا مذہب عیسائیت تھا لہذا حدیث شریف میں روم کی فتح سے مراد فقط روم شہر کی فتح نہیں بلکہ پوری عیسائی دنیا کی فتح مراد ہے۔ روم” کا لفظ محض عیسائیت کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔

عہد نبوی میں سلطنت روم درج ذیل علاقوں پر مشتمل تھی ۔ یورپ کی بعض ریاستیں اور ترکی ، شام، مصر، لبنان، عمان، فلسطین، اردن ، قبرص، سدوم اور روس ۔ روم کی فتح سے پہلے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہونے والی جنگوں میں سے احادیث میں صرف ایک اور جنگ کا ذکر ملتا ہے اگر چہ اس جنگ کے وقت اور جگہ کا سو فیصد تعین کرنا ممکن نہیں تاہم قرائن سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ جنگ فتح روم سے کچھ عرصہ پہلے شام کے پہاڑی علاقوں میں ہوگی ، کیونکہ فتح روم کے فورا بعد دجال ظاہر ہوگا اور سید نا حضرت

عیسی علیشاہ کی قیادت میں اس کے خلاف جہاد شروع ہو جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب ! یہاں ہم فتح روم اور اس سے کچھ عرصہ پہلے ہونے والی دونوں جنگوں کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں۔

تفصیل کتاب ہذا کے باب “الملاحم ” ( جنگوں کا بیان ) میں آپ پڑھ لیں گے۔ سقوط روم سے قبل جنگ : مسلمان اور عیسائی دونوں مل کر کسی مشترکہ دشمن سے لڑائی کریں گے اور انہیں فتح حاصل ہوگی ۔ دونوں آپس میں مال غنیمت تقسیم کریں گے اور اس کے بعد ایک ٹیلیوں والی جگہ پر پڑاؤ ڈالیں گے جہاں ایک عیسائی کمانڈرکھڑا ہو کر اعلان کرے گا ” صلیب غالب ہوئی” ایک غیرت مند مسلمان کمانڈ راٹھ کر اسے تھپڑ مارے گا ، جھگڑا بڑھ جائے گا جس کے نتیجہ میں عیسائی صلح کا معاہدہ توڑ دیں گے اور مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے اس (80) عیسائی ممالک کا اتحاد قائم کریں گے۔

گھمسان کی جنگ ہوگی جس میں مسلمانوں کا سارا شکر شہید ہو جائے گا اور عیسائیوں کو فتح ہوگی۔ ب – سقوط روم : معرکہ روم ہی وہ آخری جنگ عظیم ہے جس کے بعد قیامت کی بڑی علامتوں علامات کبری ) کا ظہور شروع ہو جائے گا۔ معرکہ کی تفصیل یہ ہے کہ شامی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک جنگ ہوگی جس میں مسلمانوں کو فتح ہوگی اور وہ عیسائیوں کے مردوں اور عورتوں کو اپنا غلام بنا لیں گے ۔ عیسائی لشکر ، شامی مسلمانوں سے انتقام لینے کے لئے شام پر حملہ آور ہوگا۔ شام کے شہر حلب کے قریب اعماق یا دابق کا مقام میدان جنگ بنے گا۔ جنگ سے پہلے مدینہ منورہ سے مسلمانوں کا ایک لشکر شامی مسلمانوں کی مدد کے لئے اعماق (یاد اب پنچے گا و عیسائی کمانڈ ر دونی لشکر کے کمانڈر سے کہے گا ” تم

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *