ویلنٹائن ڈے اور ہماری نوجوان نسل
Truck accident
۱۴؍فروری کو منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے کا نام نہاد تہوار بھی جدید یورپ کی تہذیبی گمراہی اور ثقافتی بے اعتدالیوں کا شاخسانہ ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے بالآخر جنسی آوارگی، بے ہودگی اور خرافات کو مسلسل پراپیگنڈے کے زور پر ایک ‘تہوار’ بنا دیا ہے۔ مغربی میڈیا نوجوانوں میں اخلاقی نصب العین کے مقابلے میں ہمیشہ بے راہ روی کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی ایک مخصوص طبقہ ویلنٹائن ڈے کے نام پر نوجوان نسل کو بے راہ روی اور بے ہودہ عشق بازی کے مشاغل میں مبتلا کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔
خدا کے فضل و کرم سے اہلِ پاکستان کی عظیم اکثریت اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اقدار پر غیرمتزلزل یقین رکھتی ہے۔ وہ ویلنٹائن ڈے کو مغرب کی تہذیبی گمراہی سمجھتے ہوئے اسے تہوار کے طور پر منانے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ مگر ایک متحرک اقلیت جو فکری افلاس اور تہذیبی درماندگی کا شکار اور مغربی ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈہ سے غیرمعمولی طور پر متاثر ہے، ویلنٹائن ڈے کو نوجوان نسل کے سامنے ‘محبت کا تہوار’ بنا کر پیش کررہی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ حکومت اور ہمارے سنجیدہ طبقات نے ان ثقافتی لفنگوں کو نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کھلم کھلا چھٹی دے رکھی ہے۔ ان کی روک تھام کی جارہی ہے، نہ ہی پاکستان کی نوجوان نسل کو اس گمراہی سے بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ کاوش کی جارہی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے آنے میں ابھی چند روز باقی ہیں مگر ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے بعض ٹی وی چینلز نے اس کی تشہیر کی مہم جاری کر رکھی ہے۔ خواتین اینکرپرسن اپنے پروگراموں میں ویلنٹائن ڈے منانے کا درس دے رہی ہیں۔ اُنھوں نے پروگرام روم کو کیوپڈ کے نشانات سے سجا رکھا ہے۔ اشتہارات میں ویلنٹائن ڈے کے تحائف دینے دلانے کے مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل نے اپنے آنے والے پروگرام کا عنوان ہی ‘۱۴؍فروری کے پھول’ رکھ دیا ہے۔ ہر ٹی وی چینل ۱۴؍فروری کو پیش کیے جانے والے پروگراموں کی تفصیلات پیش کر رہا ہے۔ اشتہارات میں ویلنٹائن ڈے کی نسبت سے سرخ رنگ کو نمایاں طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ موبائل فون کمپنیوں نے اس ملک کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ویلنٹائن ڈے قریب آتے ہی ان کی طرف سے مختلف پیکجز کے ذریعے نوجوانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ اپنے ‘ویلنٹائن’ کو محبت کے پیغامات دینے میں کس طرح ان کی خدمات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ پھول بیچنے والوں نے سٹاک جمع کر لیے ہیں تاکہ ۱۴؍فروری کو چاندی بنا سکیں۔ ہر بڑے سٹور پر ویلنٹائن کارڈ اور اس کے متعلقہ تحائف کے سٹال نظرآتے ہیں۔ پاکستان کی بیٹیاں بڑی بے باکی سے یہ کارڈ اور تحائف خریدتی نظر آتی ہیں، ان کے چہروں پر کسی پشیمانی، تاسف یا گناہ کے اثرات نظر نہیں آتے۔ ایک وقت تھا کہ ‘بوائے فرینڈ’ کا لفظ ہی اس قدر ناپسندیدہ تھا کہ کوئی لڑکی معاشرے کے خوف سے اِسے زبان پر نہیں لاسکتی تھی آج قوم کی ہزاروں بیٹیاں ویلنٹائن کے تحائف خریدنے اور اخبارات میں محبت اور بے ہودہ عشق بازی کے پیغامات شائع کرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ ہمارے معاشرے کا یہ بڑھتا ہوا اخلاقی زوال ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
جو لوگ ویلنٹائن ڈے کو محض ‘محبت کا تہوار’ بناکر پیش کرتے ہیں اور اسے منانے میں کوئی اخلاقی قباحت محسوس نہیں کرتے، وہ حقائق سے چشم پوشی کررہے ہیں۔ یا تو اُنھیں اس یوم کے حوالے سے یورپ کی تاریخ کا علم نہیں ہے یا پھر وہ محبت کے جنوں میں کسی سچائی کو جان لینے کی خواہش نہیں رکھتے۔ حیرت تو یہ ہے کہ بعض لاعلم خواتین و حضرات ویلنٹائن ڈے پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو محبت کے پیغامات بھجواتے ہیں اور اِسے اپنے خیال میں ایک نیک اور اچھا عمل سمجھتے ہیں۔درحقیقت ہمارے ہاں اباحیت پسندوں نے’محبت’ کے لفظ کا بے حد استحصال کیا ہے۔وہ برملا ‘شہوت’ اور ‘فسق’ کی تبلیغ کی جراء ت تو نہیں کرسکتے،اِسی لیے شہوت رانی کے لیے’محبت’ اور فسق کے لیے ‘عشق’ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
جو لوگ حقائق کے متلاشی ہیں، اُنھیں جان لینا چاہیے کہ ویلنٹائن ڈے مغرب میں بھی اَوباشوں اور لفنگوں کا دن سمجھا جاتا ہے۔ مغرب کے سنجیدہ اور سچی اقدار پر یقین رکھنے والے بھی ویلنٹائن ڈے کو گمراہی سمجھتے ہیں۔ آج بھی یورپ اور امریکا میں مذہب پر یقین رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ یورپ اور امریکا میں ویلنٹائن ڈے کو شروع میں جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پیش پیش تھیں۔ سان فرانسسکو اور امریکا کے دیگر شہروں میں یہ نوجوان برہنہ ہوکر جلوس نکالتے تھے۔ اس جلوس کے شرکا اپنے سینوں اور اعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکائے ہوتے تھے۔ اس دن جنسی انارکی کا بدترین مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔
جس دن ‘ویلنٹائن ڈے’ کو منا منا کر ہمارے بعض ‘محبت کے متوالے’ ہلکان ہوتے رہے ہیں، وہ ‘تقریبِ شریف’ تو اہلِ مغرب کے لیے بھی بدعتِ جدیدہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ماضی میں یورپ میں بھی اس کو منانے والے نہ ہونے کے برابر تھے، اس دن کے متعلق مغربی ذرائع اَبلاغ بھی اس قدر حساس نہیں تھے۔ اگر یہ کوئی بہت اہم یا ہردلعزیز تہوار ہوتا تو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں اس کا ذکر محض چار سطور پر مبنی نہ ہوتا، جہاں معمولی معمولی واقعات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں سینٹ ویلنٹائن کے متعلق چند سطری تعارف کے بعد ویلنٹائن ڈے کے متعلق تذکرہ محض ان الفاظ میں ملتا ہے:
”سینٹ ویلنٹائن ڈے’ کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار (Lover’s Festival) کے طور پر منایا جاتا ہے یا ویلنٹائن کارڈذ بھیجنے کی جو نئی روایت چل نکلی ہے، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لوپر کالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوارِ بارآوری یا پرندوں کے ‘ایامِ اختلاط’ (Meeting Season) سے ہے۔”
گویا اس مستند حوالہ کی کتاب کے مطابق اس دن کی سینٹ سے سرے سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ بعض رومانیت پسند اَدیبوں نے جدت طرازی فرماتے ہوئے اس کو خواہ مخواہ سینٹ ویلنٹائن کے سرتھوپ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ نے ماضی میں کبھی بھی اس تہوار کو قومی یا ثقافتی تہوار کے طور پر قبول نہیں کیا۔ البتہ آج کے یورپ کے روایت شکن جنونیوں کا معاملہ الگ ہے۔
ایک اور انسائیکلو پیڈیا ‘بک آف نالج’ میں اس دن کے بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیلات ملتی ہیں مگر وہ بھی تہائی صفحہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس کی پہلی سطر ہی رومان انگیز ہے:
”۱۴؍فروری محبوبوں کے لیے خاص دن ہے۔”
اس کے بعد وہی پرندوں کے اختلاط کا ملتا جلتا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے:
99999
”ایک وقت تھا کہ اسے سال کا وہ وقت خیال کیا جاتا تھا جب پرندے صنفی مواصلت کا آغاز کرتے ہیں اور محبت کا دیوتا نوجوان مردوں اور عورتوں کے دلوں پر تیر برسا کر اُنھیں چھلنی کرتا ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ انکے مستقبل کی خوشیاں ویلنٹائن کے تہوار سے وابستہ ہیں۔”
اس انسائیکلو پیڈیا میں ‘ویلنٹائن ڈے’ کا تاریخی پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے:
”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقۂ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلنٹائن والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیے کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے۔ اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔”
۱۴؍فروری کو سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں ہے البتہ ایک غیرمستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف ِ گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا، اس لیے ایک ویلنٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ۱۴؍فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔
۱۹۹۷ء میں شائع ہونے والے انسائیکلو پیڈیا آف کیتھولک ازم (Catholicism) کے بیان کے مطابق سینٹ ویلنٹائن کا اس دن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اصل الفاظ ملاحظہ کیجیے:
”ویلنٹائن نام کے دو مسیحی اولیا (Saints) کا نام ملتا ہے۔ ان میں سے ایک کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ روم کا ایک پادری تھا جسے رومی دیوتائوں کی پوجا سے انکار کرنے پر ۲۶۹ء میں شہنشاہ کلاڈئیس دوم (Cladius-II) کے حکم پر موت کی سزا دی گئی۔ دوسرا طرنی (Terni) کا ایک بشپ تھا جس کو لوگوں کو شفا بخشنے کی روحانی طاقت حاصل تھی۔ اسے اس سے بھی کئی سال پہلے ‘شہید’ کر دیا گیا تھا… آیا کہ ایک سینٹ ویلنٹائن تھا یا اس نام کے دو افراد تھے؟ یہ ابھی تک ایک کھلا ہوا سوال ہے۔ البتہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ان دونوں کا محبت کرنے والے جوڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محبت کے پیغامات یا تحائف بھیجنے کا رواج بعد میں غالباً اَزمنۂ وسطیٰ میں اس خیال کے تحت شروع ہوا کہ ۱۴؍فروری پرندوں کی جنسی مواصلت کا دن ہے۔ مسیحی کیلنڈر میں یہ دن کسی سینٹ کی یاد میں تہوار کے طور پر نہیں منایا جاتا۔” (The Harper Lollins Encyclopeadia of Catholicism: p.1294)
فرض کیجیے مسیحی یورپ یا روم کی تاریخ میں سینٹ ویلنٹائن نام کے کوئی ‘شہید محبت’ گذرے بھی ہیں، تب بھی ہمارے لیے ایسے تہواروں کو منانا نرم ترین الفاظ میں ایک ‘شرم ناک ثقافتی مظاہرہ’ ہوگا۔ امریکا اور یورپ کے جنس پرستوں کے ساتھ کندھا ملا کر چلنا ہمارے لیے کوئی باعث ِ افتخار اَمر نہیں ہے۔ ہمارا دین اور ہماری تہذیب اس گراوٹ سے ہمیں بہت بلند دیکھنا چاہتے ہیں۔
مغرب کی طرف سے درآمد کردہ ویلنٹائن جیسے فحش انگیز،بے ہودہ تہوار پاکستان جیسے اسلامی ملک کی تہذیب و ثقافت کے لیے سنگین خطرات پیدا کررہے ہیں۔ ویلنٹائن جیسے تہواروں کی حوصلہ شکنی بلکہ بیخ کنی کے لیے حکومت ِ پاکستان کو بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسلامی طرزِ حیات کو فروغ دینا حکومتِ پاکستان کا آئینی فریضہ ہے۔ عوام کی بے ضرر تفریحی تقریبات میں حکومت کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، مگر ایسی بے ہودہ سرگرمیاں جو اسلامی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیں، ان کے متعلق حکومت کو خاموش تماشائی کا کردار اَدا نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں نئی نسل کی فکری راہنمائی کے فریضے سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
ویلنٹائن ڈے کے متعلق پاکستان کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ۲۰۰۲ء میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا، وہ آج پہلے سے زیادہ حقیقی نظر آتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا تھا:
”مغرب سے گہری وابستگی اور قربت کے طوفان کو نہ روکا گیا تو مغربی فضولیات ہماری معاشرتی اَقدار کو بہا لے جائیں گی۔ ویلنٹائن ڈے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انگریزی تہذیب کے ایام ہماری نئی نسل کے کردار کو مسخ کردیں گے۔ اس حوالے سے نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ مغرب اسلام سے چونکہ بہت خائف ہے، اسی لیے وہ ہمارے معاشرے میں ایسے تہواروں کو فروغ دے رہا ہے۔”
سانحہ ارتحال:موتُ العالِم موتُ العالَم یقینا کسی عالم کی موت پورے عالم کی موت ہوا کرتی ہے، کیونکہ ایک عالم کے دارِ فانی سے کوچ کرتے ہی وہ سب علمی فیوض جن سے سارا عالم سیراب ہو رہا ہوتا ہے معطل ہو کے رہ جاتی ہیں یا پھر ایک عالم اپنے علم سے مردہ دلوں کو زندگی بخشنے کا ذریعہ بنتا ہے،لہٰذا اس کی موت سے بنجر دلوںکی شادابی کی جاتی ہے جس کے بغیر وہ ایک ایسے مردہ جسم کی مانند رہ جاتے ہیں جس میں زندگی کی رمق تک نہ ہو۔حافظ محمد اسمٰعیل الخطیبؒ بھی ان تمام صفات سے متصف تھے جو ایک عالم میں پائی جاتی ہیں۔اور وہ آج ہم سے بچھڑ چکے ہیں۔ اِنا للہ وانا الیہ راجعون!
حافظ صاحب ایک عالم باعمل تھے۔تحصیلِ علم کے بعد آپ کی ساری زندگی قرآن وسنت کی اشاعت اور بدعات وخرافات کی بیخ کنی میں گزری۔حافظ صا حبؒ ایک منجھے نکتہ رس اور مانے ہوئے خطیب تھے۔آپکے علم میں رسوخ اور تبحر علمی کی توثیق بقیۃ السلف حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ جیسے عالم باعمل سے بھی ہو چکی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حافظ محمد اسمٰعیل الخطیبؒ کو اس خوبی سے نوازا تھا کہ آپ اپنے خطبات یا وعظ کے دوران آیاتِ قرآنیہ اور اَحادیث سے سیکڑوں بامقصد نکات نکالتے کہ سننے والا دنگ رہ جاتااوران کی اس خوبی کے علماء ومشائخ بھی معترف تھے۔آپ کے خطبات سے کتنے ہی لوگوں نے راہ ہدایت پائی۔حافظ صاحبؒ ایک عرصہ سے معدہ کے کینسر میں مبتلا تھے،لیکن عرصہ تین مہینہ سے بیماری زور پکڑ گئی اور آخر ۲۲؍فروری ۲۰۱۰ء بروز سوموار خالق حقیقی سے جاملے۔اِدارہ محدث ان کے لواحقین کے غم میں برابر کا شریک ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی لحد پرکروڑوں رحمتیں برسائے۔آمین
Truck accident
۱۴؍فروری کو منایا جانے والا ویلنٹائن ڈے کا نام نہاد تہوار بھی جدید یورپ کی تہذیبی گمراہی اور ثقافتی بے اعتدالیوں کا شاخسانہ ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے بالآخر جنسی آوارگی، بے ہودگی اور خرافات کو مسلسل پراپیگنڈے کے زور پر ایک ‘تہوار’ بنا دیا ہے۔ مغربی میڈیا نوجوانوں میں اخلاقی نصب العین کے مقابلے میں ہمیشہ بے راہ روی کو فروغ دینے میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی ایک مخصوص طبقہ ویلنٹائن ڈے کے نام پر نوجوان نسل کو بے راہ روی اور بے ہودہ عشق بازی کے مشاغل میں مبتلا کرنے میں مصروف نظر آتا ہے۔
خدا کے فضل و کرم سے اہلِ پاکستان کی عظیم اکثریت اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اقدار پر غیرمتزلزل یقین رکھتی ہے۔ وہ ویلنٹائن ڈے کو مغرب کی تہذیبی گمراہی سمجھتے ہوئے اسے تہوار کے طور پر منانے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ مگر ایک متحرک اقلیت جو فکری افلاس اور تہذیبی درماندگی کا شکار اور مغربی ذرائع ابلاغ کے پراپیگنڈہ سے غیرمعمولی طور پر متاثر ہے، ویلنٹائن ڈے کو نوجوان نسل کے سامنے ‘محبت کا تہوار’ بنا کر پیش کررہی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ حکومت اور ہمارے سنجیدہ طبقات نے ان ثقافتی لفنگوں کو نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کھلم کھلا چھٹی دے رکھی ہے۔ ان کی روک تھام کی جارہی ہے، نہ ہی پاکستان کی نوجوان نسل کو اس گمراہی سے بچانے کے لیے کوئی سنجیدہ کاوش کی جارہی ہے۔
ویلنٹائن ڈے کے آنے میں ابھی چند روز باقی ہیں مگر ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے بعض ٹی وی چینلز نے اس کی تشہیر کی مہم جاری کر رکھی ہے۔ خواتین اینکرپرسن اپنے پروگراموں میں ویلنٹائن ڈے منانے کا درس دے رہی ہیں۔ اُنھوں نے پروگرام روم کو کیوپڈ کے نشانات سے سجا رکھا ہے۔ اشتہارات میں ویلنٹائن ڈے کے تحائف دینے دلانے کے مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل نے اپنے آنے والے پروگرام کا عنوان ہی ‘۱۴؍فروری کے پھول’ رکھ دیا ہے۔ ہر ٹی وی چینل ۱۴؍فروری کو پیش کیے جانے والے پروگراموں کی تفصیلات پیش کر رہا ہے۔ اشتہارات میں ویلنٹائن ڈے کی نسبت سے سرخ رنگ کو نمایاں طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ موبائل فون کمپنیوں نے اس ملک کی نوجوان نسل کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ ویلنٹائن ڈے قریب آتے ہی ان کی طرف سے مختلف پیکجز کے ذریعے نوجوانوں کو ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ اپنے ‘ویلنٹائن’ کو محبت کے پیغامات دینے میں کس طرح ان کی خدمات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ پھول بیچنے والوں نے سٹاک جمع کر لیے ہیں تاکہ ۱۴؍فروری کو چاندی بنا سکیں۔ ہر بڑے سٹور پر ویلنٹائن کارڈ اور اس کے متعلقہ تحائف کے سٹال نظرآتے ہیں۔ پاکستان کی بیٹیاں بڑی بے باکی سے یہ کارڈ اور تحائف خریدتی نظر آتی ہیں، ان کے چہروں پر کسی پشیمانی، تاسف یا گناہ کے اثرات نظر نہیں آتے۔ ایک وقت تھا کہ ‘بوائے فرینڈ’ کا لفظ ہی اس قدر ناپسندیدہ تھا کہ کوئی لڑکی معاشرے کے خوف سے اِسے زبان پر نہیں لاسکتی تھی آج قوم کی ہزاروں بیٹیاں ویلنٹائن کے تحائف خریدنے اور اخبارات میں محبت اور بے ہودہ عشق بازی کے پیغامات شائع کرانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ ہمارے معاشرے کا یہ بڑھتا ہوا اخلاقی زوال ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
جو لوگ ویلنٹائن ڈے کو محض ‘محبت کا تہوار’ بناکر پیش کرتے ہیں اور اسے منانے میں کوئی اخلاقی قباحت محسوس نہیں کرتے، وہ حقائق سے چشم پوشی کررہے ہیں۔ یا تو اُنھیں اس یوم کے حوالے سے یورپ کی تاریخ کا علم نہیں ہے یا پھر وہ محبت کے جنوں میں کسی سچائی کو جان لینے کی خواہش نہیں رکھتے۔ حیرت تو یہ ہے کہ بعض لاعلم خواتین و حضرات ویلنٹائن ڈے پر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو محبت کے پیغامات بھجواتے ہیں اور اِسے اپنے خیال میں ایک نیک اور اچھا عمل سمجھتے ہیں۔درحقیقت ہمارے ہاں اباحیت پسندوں نے’محبت’ کے لفظ کا بے حد استحصال کیا ہے۔وہ برملا ‘شہوت’ اور ‘فسق’ کی تبلیغ کی جراء ت تو نہیں کرسکتے،اِسی لیے شہوت رانی کے لیے’محبت’ اور فسق کے لیے ‘عشق’ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔
جو لوگ حقائق کے متلاشی ہیں، اُنھیں جان لینا چاہیے کہ ویلنٹائن ڈے مغرب میں بھی اَوباشوں اور لفنگوں کا دن سمجھا جاتا ہے۔ مغرب کے سنجیدہ اور سچی اقدار پر یقین رکھنے والے بھی ویلنٹائن ڈے کو گمراہی سمجھتے ہیں۔ آج بھی یورپ اور امریکا میں مذہب پر یقین رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ یورپ اور امریکا میں ویلنٹائن ڈے کو شروع میں جوش و خروش سے منانے والوں میں ہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے اور لڑکیاں پیش پیش تھیں۔ سان فرانسسکو اور امریکا کے دیگر شہروں میں یہ نوجوان برہنہ ہوکر جلوس نکالتے تھے۔ اس جلوس کے شرکا اپنے سینوں اور اعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکائے ہوتے تھے۔ اس دن جنسی انارکی کا بدترین مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے۔
جس دن ‘ویلنٹائن ڈے’ کو منا منا کر ہمارے بعض ‘محبت کے متوالے’ ہلکان ہوتے رہے ہیں، وہ ‘تقریبِ شریف’ تو اہلِ مغرب کے لیے بھی بدعتِ جدیدہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ماضی میں یورپ میں بھی اس کو منانے والے نہ ہونے کے برابر تھے، اس دن کے متعلق مغربی ذرائع اَبلاغ بھی اس قدر حساس نہیں تھے۔ اگر یہ کوئی بہت اہم یا ہردلعزیز تہوار ہوتا تو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں اس کا ذکر محض چار سطور پر مبنی نہ ہوتا، جہاں معمولی معمولی واقعات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں سینٹ ویلنٹائن کے متعلق چند سطری تعارف کے بعد ویلنٹائن ڈے کے متعلق تذکرہ محض ان الفاظ میں ملتا ہے:
”سینٹ ویلنٹائن ڈے’ کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار (Lover’s Festival) کے طور پر منایا جاتا ہے یا ویلنٹائن کارڈذ بھیجنے کی جو نئی روایت چل نکلی ہے، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لوپر کالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوارِ بارآوری یا پرندوں کے ‘ایامِ اختلاط’ (Meeting Season) سے ہے۔”
گویا اس مستند حوالہ کی کتاب کے مطابق اس دن کی سینٹ سے سرے سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ بعض رومانیت پسند اَدیبوں نے جدت طرازی فرماتے ہوئے اس کو خواہ مخواہ سینٹ ویلنٹائن کے سرتھوپ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ نے ماضی میں کبھی بھی اس تہوار کو قومی یا ثقافتی تہوار کے طور پر قبول نہیں کیا۔ البتہ آج کے یورپ کے روایت شکن جنونیوں کا معاملہ الگ ہے۔
ایک اور انسائیکلو پیڈیا ‘بک آف نالج’ میں اس دن کے بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیلات ملتی ہیں مگر وہ بھی تہائی صفحہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس کی پہلی سطر ہی رومان انگیز ہے:
”۱۴؍فروری محبوبوں کے لیے خاص دن ہے۔”
اس کے بعد وہی پرندوں کے اختلاط کا ملتا جلتا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے:
99999
”ایک وقت تھا کہ اسے سال کا وہ وقت خیال کیا جاتا تھا جب پرندے صنفی مواصلت کا آغاز کرتے ہیں اور محبت کا دیوتا نوجوان مردوں اور عورتوں کے دلوں پر تیر برسا کر اُنھیں چھلنی کرتا ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ انکے مستقبل کی خوشیاں ویلنٹائن کے تہوار سے وابستہ ہیں۔”
اس انسائیکلو پیڈیا میں ‘ویلنٹائن ڈے’ کا تاریخی پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے:
”ویلنٹائن ڈے کے بارے میں یقین کیا جاتا ہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لیے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقۂ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلنٹائن والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیے کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے۔ اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا۔”
۱۴؍فروری کو سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں ہے البتہ ایک غیرمستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ (Nun) کی زلف ِ گرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا، اس لیے ایک ویلنٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ۱۴؍فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔
۱۹۹۷ء میں شائع ہونے والے انسائیکلو پیڈیا آف کیتھولک ازم (Catholicism) کے بیان کے مطابق سینٹ ویلنٹائن کا اس دن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اصل الفاظ ملاحظہ کیجیے:
”ویلنٹائن نام کے دو مسیحی اولیا (Saints) کا نام ملتا ہے۔ ان میں سے ایک کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ روم کا ایک پادری تھا جسے رومی دیوتائوں کی پوجا سے انکار کرنے پر ۲۶۹ء میں شہنشاہ کلاڈئیس دوم (Cladius-II) کے حکم پر موت کی سزا دی گئی۔ دوسرا طرنی (Terni) کا ایک بشپ تھا جس کو لوگوں کو شفا بخشنے کی روحانی طاقت حاصل تھی۔ اسے اس سے بھی کئی سال پہلے ‘شہید’ کر دیا گیا تھا… آیا کہ ایک سینٹ ویلنٹائن تھا یا اس نام کے دو افراد تھے؟ یہ ابھی تک ایک کھلا ہوا سوال ہے۔ البتہ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ ان دونوں کا محبت کرنے والے جوڑوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ محبت کے پیغامات یا تحائف بھیجنے کا رواج بعد میں غالباً اَزمنۂ وسطیٰ میں اس خیال کے تحت شروع ہوا کہ ۱۴؍فروری پرندوں کی جنسی مواصلت کا دن ہے۔ مسیحی کیلنڈر میں یہ دن کسی سینٹ کی یاد میں تہوار کے طور پر نہیں منایا جاتا۔” (The Harper Lollins Encyclopeadia of Catholicism: p.1294)
فرض کیجیے مسیحی یورپ یا روم کی تاریخ میں سینٹ ویلنٹائن نام کے کوئی ‘شہید محبت’ گذرے بھی ہیں، تب بھی ہمارے لیے ایسے تہواروں کو منانا نرم ترین الفاظ میں ایک ‘شرم ناک ثقافتی مظاہرہ’ ہوگا۔ امریکا اور یورپ کے جنس پرستوں کے ساتھ کندھا ملا کر چلنا ہمارے لیے کوئی باعث ِ افتخار اَمر نہیں ہے۔ ہمارا دین اور ہماری تہذیب اس گراوٹ سے ہمیں بہت بلند دیکھنا چاہتے ہیں۔
مغرب کی طرف سے درآمد کردہ ویلنٹائن جیسے فحش انگیز،بے ہودہ تہوار پاکستان جیسے اسلامی ملک کی تہذیب و ثقافت کے لیے سنگین خطرات پیدا کررہے ہیں۔ ویلنٹائن جیسے تہواروں کی حوصلہ شکنی بلکہ بیخ کنی کے لیے حکومت ِ پاکستان کو بھرپور اقدامات کرنے چاہئیں۔ اسلامی طرزِ حیات کو فروغ دینا حکومتِ پاکستان کا آئینی فریضہ ہے۔ عوام کی بے ضرر تفریحی تقریبات میں حکومت کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے، مگر ایسی بے ہودہ سرگرمیاں جو اسلامی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیں، ان کے متعلق حکومت کو خاموش تماشائی کا کردار اَدا نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں نئی نسل کی فکری راہنمائی کے فریضے سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔
ویلنٹائن ڈے کے متعلق پاکستان کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے ۲۰۰۲ء میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا، وہ آج پہلے سے زیادہ حقیقی نظر آتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا تھا:
”مغرب سے گہری وابستگی اور قربت کے طوفان کو نہ روکا گیا تو مغربی فضولیات ہماری معاشرتی اَقدار کو بہا لے جائیں گی۔ ویلنٹائن ڈے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انگریزی تہذیب کے ایام ہماری نئی نسل کے کردار کو مسخ کردیں گے۔ اس حوالے سے نئی نسل کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ مغرب اسلام سے چونکہ بہت خائف ہے، اسی لیے وہ ہمارے معاشرے میں ایسے تہواروں کو فروغ دے رہا ہے۔”
سانحہ ارتحال:موتُ العالِم موتُ العالَم یقینا کسی عالم کی موت پورے عالم کی موت ہوا کرتی ہے، کیونکہ ایک عالم کے دارِ فانی سے کوچ کرتے ہی وہ سب علمی فیوض جن سے سارا عالم سیراب ہو رہا ہوتا ہے معطل ہو کے رہ جاتی ہیں یا پھر ایک عالم اپنے علم سے مردہ دلوں کو زندگی بخشنے کا ذریعہ بنتا ہے،لہٰذا اس کی موت سے بنجر دلوںکی شادابی کی جاتی ہے جس کے بغیر وہ ایک ایسے مردہ جسم کی مانند رہ جاتے ہیں جس میں زندگی کی رمق تک نہ ہو۔حافظ محمد اسمٰعیل الخطیبؒ بھی ان تمام صفات سے متصف تھے جو ایک عالم میں پائی جاتی ہیں۔اور وہ آج ہم سے بچھڑ چکے ہیں۔ اِنا للہ وانا الیہ راجعون!
حافظ صاحب ایک عالم باعمل تھے۔تحصیلِ علم کے بعد آپ کی ساری زندگی قرآن وسنت کی اشاعت اور بدعات وخرافات کی بیخ کنی میں گزری۔حافظ صا حبؒ ایک منجھے نکتہ رس اور مانے ہوئے خطیب تھے۔آپکے علم میں رسوخ اور تبحر علمی کی توثیق بقیۃ السلف حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ جیسے عالم باعمل سے بھی ہو چکی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حافظ محمد اسمٰعیل الخطیبؒ کو اس خوبی سے نوازا تھا کہ آپ اپنے خطبات یا وعظ کے دوران آیاتِ قرآنیہ اور اَحادیث سے سیکڑوں بامقصد نکات نکالتے کہ سننے والا دنگ رہ جاتااوران کی اس خوبی کے علماء ومشائخ بھی معترف تھے۔آپ کے خطبات سے کتنے ہی لوگوں نے راہ ہدایت پائی۔حافظ صاحبؒ ایک عرصہ سے معدہ کے کینسر میں مبتلا تھے،لیکن عرصہ تین مہینہ سے بیماری زور پکڑ گئی اور آخر ۲۲؍فروری ۲۰۱۰ء بروز سوموار خالق حقیقی سے جاملے۔اِدارہ محدث ان کے لواحقین کے غم میں برابر کا شریک ہے۔اللہ تعالیٰ ان کی لحد پرکروڑوں رحمتیں برسائے۔آمین