‘محبوب آپ کے قدموں میں؟’ پُراسرار دنیا کے اسرار و رموز
پشاور کی گنجان آباد اور تنگ و تاریک گلیوں سے ہوتے ہوئے میں اپنے دوست کے ہمراہ ایک خاموش مقام پر پہنچا۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو خود ہی کھل گیا۔ اندر اندھیرا تھا اور تنگ سی ڈیوڑھی نظر آئی، بائیں طرف سیڑھیوں پر چڑھے اور دوسری منزل پر ایک تاریک کمرے میں داخل ہوئے۔
اندر کا منظر کچھ عجیب سا تھا، عامل صاحب شٹل کاک برقعہ پہنے 2 خواتین کو بتا رہے تھے کہ ‘بیٹا پیدا ہوگا مگر اس کے لیے موکل کو کھلانا پلانا پڑتا ہے’۔ جس کا بلا شرکت غیرے یہی مطلب تھا کہ آپ کی بیٹے کی مراد تب ہی بر آئے گی جب آپ میری جھولی میں لال جواہرات اور کچھ ہرے نوٹ ڈالیں گے۔
کھڑکیاں کھلی تھیں اور کمرے میں ہر جانب اگر بتیاں لگی تھیں، دھواں ہی دھواں، لکڑی کی 5 چھوٹی میزوں پر تعویذ ہی تعویذ پڑے تھے جن پر پینسل سے کچھ لکیریں، ہندسے اور الفاظ درج تھے۔ شاید یہ تعویذ ابھی تکمیل کے مراحل میں تھے۔
پھر سمجھ آیا کہ محبوب کو قدموں میں لانے والے جنتر منتر بھی یہاں تیار کیے جاتے ہیں۔ سامنے بیٹھی خواتین میں سے ایک کا ہاتھ تھوڑا سا برقعے سے باہر تھا، وہ ایک انگلی سے ڈیجیٹل تسبیح پھیر رہی تھی۔ کمرے میں 3 سے 4 مرد بھی بیٹھے تھے۔ 35 منٹ گزر گئے اور عامل صاحب مسلسل کاغذات پر کچھ لکھتے جارہے تھے، ایسا لگا جیسے امتحان میں نباتات کے فوائد بیان کرنے کا جواب مانگا گیا ہو اور طالب علم کو بھی صرف یہی ایک جواب آتا ہو۔
اس دوران میز پر پڑے تعویذوں کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی تو ان میں مختلف ڈیزائن دیکھنے کو ملے۔ تکونی، مستطیلی، چوکور اور گول ڈیزائن کے تعویذ نظر آئے۔ ان میں سردرد، رات کو دکان سے اکیلے دہی لانے میں ڈر لگنے، بچے کو بُری نظر لگ جانے، محبوب کی بے رخی، بانجھ پن یا نئی نئی شادی کے بعد دلہا کو ڈراؤنے خواب آنے جیسے مسائل سے نجات کے لیے کاغذ پر خاکے پہلے سے تیار تھے جن کو بعد میں حتمی شکل دے کر بس پانی میں گھول کر پینا ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر وہاں موجود 2 خواتین نے 33 تعویذات وصول کیے اور عامل صاحب کو تھمائے جانے والے ہرے ہرے نوٹوں سے پتا چلا کہ عمل کام کرے نہ کرے، ان خواتین پر عامل کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ عامل صاحب اچانک ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فاتحانہ انداز میں مسکرا کر کہا، ‘5 گھنٹے لگے ہیں، لمبا چوڑا کام ہے جی’۔
محبوب کو قدموں میں لانے کے لیے بھی یہاں مختلف ڈیزائن کے تعویذ تیار ہوتے ہیں۔ خواتین رخصت ہوئیں تو عامل صاحب کافی دیر سے اپنی باری کا انتظار کر رہے 2 نوجوانوں سے مخاطب ہوئے اور تعویذ کا طریقہ کار سمجھاتے رہے۔ جس بڑے کاغذ پر مخصوص زبان میں جو کلمات درج تھے اس کاغذ کو 5 حصوں میں کاٹ کر 5 سگریٹ نما بتیاں بنائیں اور کاغذ نوجوان کے حوالے کردیا۔ اس تعویذ کو سلگا کر محبوب کے گھر کا چکر لگانا پڑتا ہے۔
دوسرے تعویذ کو چوکور شکل میں لپیٹ کر پلاسٹک میں بند کیا اور درخت پر اس طرح باندھنے کے لیے کہا کہ اس پر لگنے والی ہوا محبوب کو بھی چھوئے۔ گول تعویذ سرہانے رکھنے کی تلقین کی جبکہ تکونے تعویذ کو دروازے کے باہر بغیر کسی حفاظتی لحاف کے دیوار میں چُننے کی ہدایت کی۔ ساتھ یہ بھی یاد دلایا کہ لمبے مستطیل تعویذ کو موڑنا نہیں بس ہر جمعرات کی شام اور منگل کی بھری دوپہر کو پانی میں گھول کر پینا ہے۔ ‘کوتاہی کرنے پر پورا کام دوبارہ شروع کرنا ہوگا’، عامل نے دونوں ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے کہا۔
دوست کی باری آئی تو اپنی جگہ سے میں بھی بیٹھے بیٹھے سرک کر عامل صاحب کے پاس پہنچا۔ ‘عامل صاحب ساڈھے واسطے بھی کچھ کرو، کُڑی نئیں مندی، نہ ہی کار والے مندے نیں!’ (عامل صاحب ہمارے لیے بھی کچھ کیجیے، نہ لڑکی مان رہی ہے اور نہ ہی گھر والے!)
عامل صاحب نے دوست سے اس کی اور اس کی محبوبہ کی تفصیلات مانگیں۔ انہوں نے دوست اور اس کی محبوبہ کے والدین کے نام ایک کاغذ پر لکھ کر لکیریں کھینچ کر زائچہ بنایا پھر اس پر کراس کیا، کاغذ کو الٹا کرکے یہی عمل دہرایا، پھر کاغذ کو موڑ کر عجیب و غریب زبان میں کچھ لکھنا شروع کیا۔ ‘کام تو بہت مشکل ہے مگر ناممکن نہیں ہے، اے کُڑی وی من جانڑی اے تے کار والے وی، لیکن ٹیم لگے گا’ (یہ لڑکی بھی مان جائے گی اور گھر والے بھی لیکن وقت لگے گا)، عامل صاحب نے ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر بتایا۔
عامل صاحب نے پوچھا کہ لڑکی کی آپ کے ساتھ جان پہچان ہو تو پھر میں عمل شروع کروں گا کیونکہ عمل کے بعد وہ آپ کے گھر آئے گی۔ اگر اس وقت آپ نے پہچاننے سے انکار کیا تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا اور تعویذ کا اثر کوئی دوسرا عامل معلوم کرسکتا ہے، لہٰذا کہیں میرے لیے مسئلہ نہ پیدا ہوجائے۔
عامل نے لگ بھگ ایک درجن تعویذ بنا کر دے دیے، 5 ہزار روپے انٹری فیس لی اور بتایا کہ جیسے جیسے محبوب آپ کی طرف مائل ہوگا تو فیس بھی بڑھتی جائے گی۔ پیر صاحب نے 10 دن کا وقت دیا کہ محبوب کے آنے کی تیاریاں کریں، یہ پہلی منزل ہے جس کے بعد 6 منزلیں اور ہیں، اس کی فیس اور کام دونوں بہت زیادہ ہیں۔ ایک تعویذ پر 5 گھنٹے لگیں گے، ذرا بھی دھیان ہٹا تو کام خراب ہوجائے گا۔ ایسا محسوس ہوا کہ میڈیکل کا پرچہ ہے 5 گھنٹوں کا وقت ہے اور سوالات طویل ہیں۔ میں نے بھی جاتے جاتے عامل صاحب کو دوست کا پکا کام کرنے کی سفارش کی اور ہم دونوں وہاں سے نکل آئے۔
دوسرے علاقے میں گلی کے نکڑ پر ایک چھوٹی سی دکان نظر آئی جہاں ایک اور عامل صاحب بیٹھے تھے جو محبوب کو قدموں میں لانے کے لیے پہلے والے سے تھوڑا کم مشہور ہیں۔
دکان نما جگہ میں پہلے سے ہی 2 خوبرو اور جدید طرز کے ملبوسات پہنے لڑکیاں موجود تھیں۔ عامل صاحب نے انتظار کرنے کا اشارہ کیا۔ خواتین اور عامل صاحب کا مکالمہ سنا تو یہاں گنگا اُلٹی بہہ رہی تھی۔ خوبصورت دوشیزاؤں کا محبوب قدموں میں پڑنے کے بجائے گلے پڑگیا تھا۔ عامل صاحب نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ کر تسلی دیتے ہوئے کہا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ محبوب سے جان چھڑانے کے لیے تعویذ کے ساتھ ساتھ ترکیبیں بھی بتائی جارہی تھیں۔ عامل نے بتایا کہ تعویذ گھر میں کسی بھی جگہ باندھ لیں اور گھر والوں کے علاوہ 40 دن تک کسی سے بھی بشمول گلے پڑنے والے محبوب سے رابطہ نہیں کرنا۔ ظاہر ہے کہ 40 دن تک محبوب سے رابطہ نہ کیا جائے تو محبوب کی بے قراری بھی خود ہی ختم ہوجاتی۔
ان لڑکیوں کے بعد میرے دوست کی باری آئی تو وہی تفصیلات یہاں بھی طلب کی گئیں، عامل نے کچھ آڑھی ترچھی لکیریں کھینچیں۔ تاہم یہاں ایسا لگ رہا تھا کہ محبوب لکیروں کے بجائے ریاضی کے سوالات سے قدموں میں لایا جاتا ہے۔ دوست اور محبوب کے والدین کے ناموں کو مختلف نمبرز دیے گئے اور ریاضی کی تقسیم و ضرب اور الجبرا سمیت سارے کلیات لگائے گئے، جس کا جواب صفر میں آیا اور عامل صاحب نے دوست کو کہا کہ ‘تُو دل تھام کر صبر کرلے یہ نہیں ہوسکتا’۔
عامل نے کہا کہ ‘او بے صبرا، میری بات مان، تیری ماں نے تیرے لیے کوئی اور لڑکی پسند کر رکھی ہے، تیری ماں نے بھی تجھ پر 2 تعویذ کیے ہیں، یہ نہیں ہوسکتا، تیری ماں کے تعویذ میں بڑی جان ہے’۔
دوست کے اصرار پر عامل نے کہا کہ مجھے کچھ اور حساب کرنے دے، ایک بڑا کورا کاغذ اٹھایا اور اس پر دائرہ، تکون، چاند اور ستارے سمیت جیومیٹری کی تقریباً ساری شکلیں بنا ڈالیں بس پرکار اور ڈی کی کمی تھی۔
عامل نے 2 تجاویز دیں، ‘پہلے ایک بہت سخت عمل کروں گا کہ لڑکی 9 دن تک خود گھر تک چلی آئے گی۔ اس مقصد کے لیے ایک تعویذ بنا کر دوں گا جس پر صبح شام عطر گلاب کی خوشبو لگانی ہوگی اور اگر اثر نہ ہوا تو پھر دوسرا عمل کروں گا جس میں تجھے میں کالی مرچ دم کرکے دوں گا جسے 21 دن تک طلوعِ آفتاب سے پہلے کھانا ہوگا، محبوبہ خود تیرے دل سے اُتر جائے گی’۔
اس عامل نے انٹری فیس بھی نہیں لی، تعویذ دیا اور 9 دن بعد دوبارہ آنے کا کہا۔ کام ہوجائے تو فیس ہزاروں میں ہوگی۔ بات لاکھوں تک بھی جاسکتی ہے، ماں کے تعویذ کی طرف بھی اشارہ کیا۔
دونوں عاملوں کے تعویذات کی تاثیر کا اختتامی دن ایک ہی تھا۔ اس عمل کے نتائج کا انتظار مجھے اپنے دوست سے زیادہ تھا۔ مطلوبہ دن دوست سے معلومات لینے کے لیے رابطہ کیا تو اس نے دلچسپ صورتحال بتائی۔ کہنے لگا، ‘آج ہی دروازے پر گھنٹی بجی تو دوڑ کر باہر گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ دو بانقاب خواتین پولیس کے ہمراہ کھڑی ہیں۔ پہلے تو سمجھا کہ 9 دن ہونے پر لڑکی آگئی ہے پھر پولیس کی جانب دیکھا تو قدموں تلے زمین ہی نکل گئی، ڈرتے ڈرتے پوچھا تو خواتین نے بتایا کہ ‘5 سال سے کم عمر کے بچے لے آئیں، پولیو کے قطرے پلانے ہیں’، دوست نے بتایا کہ اس کے بعد محبوب کے قدموں تک آنے کا خیال تو دُور کی بات مہدی حسن، استاد امانت علی خان اور لالا عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی غزلیں سن کر بھی محبوب کی یاد تک نہ آئی۔ لگتا ہے تعویذ کا اثر اُلٹا ہوگیا ہے۔
خیبرپختونخوا میں سماجی مسائل پر 10 سال سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی آفتاب احمد سے ان عاملوں اور ان کے اڈوں کے بارے میں رائے جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ ہزارہ اور پشاور ڈویژن میں پنجاب کے بڑے عاملوں کے ایجنٹ کارندوں میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں۔ یہ خواتین محلوں میں خوشی و غمی کے مواقع پر ‘بابا’ کی تشہیر کے لیے ان کے جھوٹے قصیدے سناتی ہیں۔ اکثر یہی کارندے بعدازاں نیم عامل کے طور پر مشہور بھی ہوجاتے ہیں۔
مردان میں سلیم (فرضی نام) کی محبوبہ اس کے قدموں میں پہلے سے ہی تھی مگر محبوبہ کا باپ ماننے کو تیار نہیں تھا لہٰذا سلیم نے محبوبہ کے والد کے دل میں اپنی اونچی جگہ بنانے کے لیے ایک مقامی عامل سے اونچے درجے کا جنتر منتر تیار کرنے کا منصوبہ بنایا۔
سلیم نے بتایا کہ عامل نے 40 دن کا وقت دیا لیکن 26ویں دن محبوب کے والد کا انتقال ہوگیا۔ ‘اگرچہ محبوبہ کے والد کے مرجانے کا تو دکھ تھا مگر میرے لیے کام آسان ہوگیا تھا’۔
سلیم نے ہاتھ ملتے ہوئے بتایا کہ پھر کہانی نے الگ ہی موڑ اختیار کرلیا۔ محبوب کے والد کے رشتہ داروں میں ایک ایسی خاتون شامل تھی جو کالے جادو اور تعویذ کی سمجھ بوجھ رکھتی تھی۔ اسی خاتون کو کہیں سے پتا لگ گیا کہ محبوبہ کے والد کی موت کی وجہ کالا جادو ہے۔ سلیم بتاتے رہے کہ محبوبہ کا خاندان اس خاتون سمیت اسی عامل کے آستانے پر آ دھمکا اور ایک زبردست قسم کی مار کٹائی کا پروگرام ہوا جس کے بعد معاملات پولیس تک چلے گئے۔ اسی عامل کو لاکھوں روپے دے کر کیس میں اپنا نام سامنے نہ لانے کی درخواست کی، عدالت میں چونکہ جادو ٹونے کے کیس پر زیادہ کارروائی نہیں کی جاتی اس لیے مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہوگیا۔ سلیم کہتے ہیں کہ اس واقعے کو 15 سال گزر گئے ہیں، محبوب نہ ملا اور عامل بھی فوت ہوگیا۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں تعلیم و آگہی کی کمی کے باعث لوگ تعویذ اور عملیات کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بڑے شہروں کا طبقہ اشرافیہ اور انگریزی بولتے بچے بھی محبوب کو قدموں میں لانے کے لیے عامل صاحبان کے آستانوں کا رخ کرتے ہیں۔ اسلام آباد کی رہائشی صوبیہ کے گھر پہنچا تو انہیں گھر کے صحن میں ہواؤں کے رخ کا جائزہ لیتے ہوئے پایا۔ افسوس کے ساتھ اس روز ہوا کی سمت تعویذ کے مخالف تھی۔ محبوب پر تعویذ کا اثر کتنا ہوا، اس کا اندازہ صوبیہ کے چہرے اور بکھرے بالوں سے ہو رہا تھا۔
صوبیہ نے بتایا کہ ‘2 سال تک محبوب اپنے وعدوں پر قائم رہا لیکن اچانک اس کا دل اُچاٹ گیا۔ یہی غم دل میں لیے میں نے عاملوں کا سہارا لیا۔ ایک دوست کے ذریعے اٹک کے ایک علاقے میں مقیم عامل سے بات ہوئی۔ عامل نے کام ہونے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے 2 دن بعد اسلام آباد کے ایک مشہور لاری اڈے پر ملاقات کا وقت دے دیا۔ لاری اڈے پہنچے، جہاں عامل صاحب وضو کرکے آستینیں نیچے کرتے ہوئے میرے پاس آیا اور سیدھا بولا کہ آپ کا تعویذ بہت پُراثر ہے بغیر وضو کے جیب میں پھرانا مشکل ہے۔ اس نے تعویذ تھماتے ہوئے مجھ سے 30 ہزار روپے طلب کیے۔ تعویذوں کو زعفران کے پانی سے لکھا گیا تھا اس لیے قیمت بھی زیادہ تھی۔ ایک تعویذ گھر کے صحن میں آویزاں کرنے اور دوسرا تعویذ سرہانے رکھنے جبکہ تیسرا پانی میں ملا کر محبوب کو پلانے کی ہدایت کی گئی جس پر من وعن عمل کیا’۔
صوبیہ بتاتی ہیں کہ ‘ایک ماہ تک حالات کچھ بدل گئے یا شاید تعویز کا اثر تھا، یا پھر ویسے ہی نفسیاتی طور اطمینان حاصل ہورہا تھا۔ ایک ماہ بعد عامل سے رابطہ کیا کہ اب دوسری منزل کے لیے کیا کرنا ہے؟ عامل نے 80 ہزار روپے مزید طلب کیے اور کہا کہ ایک کالا بکرا خریدنا ہے جس کے خون میں زعفران ملا کر جنات کو پلانا ہوگا تاکہ جنات محبوب کے دماغ پر حاوی ہوکر اسے تمہاری طرف مائل کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔ یہ پچھلے سال کا واقعہ ہے اور اتفاق سے جون کے مہینے میں چاند گرہن ہونا تھا۔ عامل نے اٹک میں کالا چٹا پہاڑ پر اسی چاند گرہن کی رات یہ پورا عمل کرنے کا منصوبہ بنا لیا اور مجھے آن لائن ذرائع سے پیسے بھیجنے کے لیے کہا’۔
صوبیہ نے بتایا کہ ‘عامل نے محبوب کے بارے میں مزید تفصیلات طلب کیں، اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ان کی رہائش اگر دوسری منزل پر ہے تو خیال رکھنا پڑے گا کیونکہ ایسا نہ ہو کہ جنات بہت ہی تیزی سے اس کی طرف آئیں اور محبوب کو نیچے زمین پر ہی پٹخ دیں۔ ڈر اور خوشی کے مارے چاند گرہن کی رات میں سو ہی نہیں پائی’۔
صوبیہ نے مزید بتایا کہ ‘اس چاند گرہن کی رات عامل نے عمل کیا بھی یا نہیں؟ کچھ خبر نہ ہوسکی کیونکہ 80 ہزار لینے کے بعد نہ اس عامل نے کبھی فون اٹھایا اور نہ ہی محبوب کا کوئی بال بیکا ہوا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بالآخر ایک دن تنگ آکر میں نے محبوب کو اس پورے واقعے سے خود ہی آگاہ کردیا۔ میری باتیں سن کر محبوب نے کہا کہ جنات کیا شیطانی طاقت بھی میرا رویہ تبدیل نہیں کرسکتی، یہ تعویذ کے پیسے مجھے دے دیتی تو اچھا تھا، عملیات سے گرنے والا نہیں ہوں’۔ صوبیہ اضطراب کے عالم میں بتاتی رہی کہ اس نے محبوب کو قدموں میں لانے کے لیے لاکھوں روپے خرچ کردیے ہیں۔
پشاور کے دیہی علاقے میں ایک پیر صاحب کے آستانے پر سید علی شاہ سے ملاقات ہوئی جو محبوب کو قدموں میں لانے کے لیے مانسہرہ سے آئے تھے۔ سید علی شاہ بتا رہے تھے کہ ‘وہ 13سالوں سے محبوبہ کا انتظار کرتے رہے، ہر قسم کا تعویذ بے اثر ثابت ہوا۔ دیوار، سرہانے، بستر، صندوق، بندوق اور حتیٰ کہ چمگادڑ کے پر میں بھی تعویز بند کرکے محبوبہ کی دہلیز میں دفن کیا مگر محبوبہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی’۔
علی شاہ نے بتایا کہ ‘جب کسی نے پشاور میں مقیم پیر صاحب کا پتا دیا تو ان کے پاس پہنچ کر اپنی روداد سنائی اور انہوں نے تعویذ دیا کہ محبوب کے دروازے یا آس پاس کسی درخت پر لگادو، ایک ماہ میں کام ہوجائے گا’۔
صورتحال اس وقت دلچسپ ہوئی جب محبوبہ کے محلے میں سی سی ٹی وی کیمرے نظر آئے اور پھر نزدیک کوئی درخت بھی نہیں تھا کہ جہاں پیر صاحب کے مشورے کے مطابق تعویذ باندھا جاتا۔ گھوم گھوم کر بالآخر محبوبہ کے گھر سے نصف کلومیٹر دُور ایک تناور درخت مل گیا جس پر حسبِ ہدایت تعویز کو ٹانگ دیا۔ یہاں سے محبوبہ کا گھر ہر موسم خاص طور پر ساون کی تیز ہواؤں کے نشانے پر تھا۔
علی شاہ بتاتے ہیں کہ ’26 دن بعد محبوبہ کی فون کال آئی اور 2 دنوں کے اندر نکاح پڑھوانے کا بول دیا، نئے کپڑے اور چپل لینے کا وقت بھی نہیں ملا’، علی شاہ خوشی کے مارے تالیاں بجاتا رہا۔ یہاں محبوبہ کیسے قدموں میں آئی، یہ پیر صاحب سے جاننے کی کوشش کی۔
اس سوال پر ہمیں یہ بتایا گیا کہ ‘مذکورہ محبوبہ بہت ہی مغرور ہے اور خاندان میں کسی نے کالا جادو کیا ہوا تھا جس کا اثر تعویذ کے ذریعے ختم کیا تو محبوبہ خود بخود مائل ہوئی’۔
علی شاہ کے مطابق ‘پیر صاحب نیک خواہشات کی تکمیل کے لیے تیار کردہ تعویذات کی کوئی فیس وصول نہیں کرتے اور نہ ہی مجھ سے کوئی فیس وصول کی ہے’۔
سوات، نوشہرہ، کوہاٹ، ایبٹ آباد، دیر اور مانسہرہ میں سید علی شاہ جیسے درجنوں افراد موجود ہیں جو تعویذوں اور عملیات کے ذریعے محبوب کو قدموں تک لانے میں کامیاب ہوئے۔ ان تمام افراد نے سندھ اور پنجاب میں بھی کسی عامل کو نہیں چھوڑا تھا۔
ان سب کی کہانیاں الگ الگ تھیں مگر اختتامی کلمات سب کے ایک تھے۔ محبوب کو مسلسل قدموں میں رکھنے کے لیے بھی مینٹیننس کی ضرورت ہوتی ہے یعنی ہر سال تعویذ تازہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ محبوب کے بھائی، والدین اور کزنز کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے الگ تعویذات درکار ہوتے ہیں جبکہ اپنے گھر میں ماحول برابر رکھنے اور محبوب بیوی کو ساس و دیگر افراد کی جلی کٹی باتوں سے بچانے کے لیے بھی عملیات کی ضرورت پیش آتی ہے۔
اس کے بعد گھر کے آنگن میں ننھے پھولوں کے کھلنے کی خوشیاں دیکھنے کے لیے چلاّ بھی کاٹنا پڑتا ہے۔ صرف پھول ہی نہیں دادی کو تو نرینہ پھول بھی چاہیے ہوتا ہے جس کے لیے گائے کے سینگ پر ریشمی دھاگے سے 3600 گانٹھیں باندھنی ہوتی ہیں۔ اولاد کے بہتر مستقبل، تعلیم، نوکری، شادی اور پھر اسی محبوب بیوی اور اس کے میکے کے رعب سے بچنے کے لیے بھی رات کی تاریکی میں ننگے پاؤں کسی ویران جگہ پر جاکر اپنی قمیض کو آگ لگا کر منتر پڑھنا ہوتا ہے۔ اسی طرح عامل اور پیروں کے پاس ایک ناختم ہونے والا کھاتہ کھل جاتا ہے۔
@ArticleDawnNews